حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کَیْلًا بِکَیْلٍ جَزَائً غَیْرَ مَغْبوْنٖ اگر عثمان جلدی نہ بھی مرے تو بھی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو برابر سرابر پورا پورا بدلہ دے گا جس میں کوئی خسارہ نہ ہوگا۔ 1 ابن اسحاق کی روایت میں یہ بھی ہے کہ ولید نے حضرت عثمانؓ سے کہا: اے میرے بھتیجے ! اپنی سابقہ پناہ میں واپس آجاؤ ۔ انھوں نے کہا: نہیں۔2حضرت مُصْعَب بن عمیر ؓ کا سختیاں برداشت کرنا حضرت محمد عبدری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت مُصْعب بن عمیر ؓ مکہ کے سب سے زیادہ خوب صورت نوجوان اور بھرپور جوانی والے انسان تھے اور مکہ کے جوانوں میں سے اُن کے سر کے بال سب سے زیادہ عمدہ تھے۔ اُن کے والدین اُن سے بہت محبت کرتے تھے۔ اُن کی والدہ بہت زیادہ مال دار تھیں۔ وہ ان کو سب سے زیادہ خوب صورت اور سب سے زیادہ باریک کپڑا پہناتی تھیں۔ اور یہ مکہ والوں میں سب سے زیادہ عطر استعمال کرنے والے تھے، اور یہ حَضْرَمَوْت کے بنے ہوئے خاص جوتے پہنتے تھے۔ حضور ﷺ اُن کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے کہ میں نے مکہ میں مُصْعب بن عمیرسے زیادہ عمدہ بال والا اور ان سے زیادہ باریک جوڑے والا اور ان سے زیادہ ناز ونعمت میں پلا ہوا کوئی نہیں دیکھا۔ ان کو یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ دارِ اَرقم بن ابی الارقم میں اِسلام کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے اور انھوں نے حضور ﷺ کی تصدیق کی۔ وہاں سے باہر آئے تو اپنی والدہ اور قوم کے ڈر سے اپنے اِسلام کو چھپائے رکھا اور چھپ چھپ کر حضور ﷺکی خدمت میں آتے جاتے رہتے۔ ایک دن ان کو عثمان بن طلحہ نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور اس نے جاکر اُن کی والدہ اور قوم کو بتادیا۔ ان لوگوں نے ان کو پکڑ کر قید کردیا۔ چناںچہ یہ مسلسل قید میںرہے یہاںتک کہ پہلی ہجرت کے موقع پر حبشہ چلے گئے۔ پھر جب وہاں سے مسلمان واپس آئے تو یہ بھی واپس آگئے۔ واپسی میں اُن کا حال بالکل بدلا ہوا تھا۔ بڑی خستہ حالت تھی (وہ ناز ونعمت کااثر ختم ہوچکاتھا)۔ یہ دیکھ کر اُن کی والدہ نے ان کو برا بھلا کہنا اور ملامت کرنا چھوڑ دیا۔1حضرت عبد اللہ بن حُذَافہ سہمی ؓ کا سختیاں برداشت کرنا حضرت ابورافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے ملکِ روم کی طرف ایک لشکر بھیجا، جس میں حضور ﷺ کے صحابہ میں سے عبد اللہ بن حذافہ ؓ نامی ایک صحابی بھی تھے۔ اُن کو رومیوں نے گرفتار کرلیا اور پھر اُن کو اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے (جس کا لقب طاغیہ تھا) اور اسے بتایا کہ یہ محمد ( ؑ) کے صحابہ میں سے ہیں۔ تو طاغیہ نے حضرت عبد اللہ بن حذافہ سے کہا: کیا تم اس کے لیے تیار ہو کہ تم (اِسلام چھوڑ کر) نصرانی بن جاؤ، اور میں تمہیں اپنے ملک اور سلطنت میں شریک