حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
{لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَ نْصَارِ} سے لے کر {وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَO}تک۔ 1 ’’اللہ مہربان ہوا نبی پر اور مہاجرین اور اَنصار پر ‘‘سے لے کر ’’اور رہو ساتھ سچوں کے‘‘ تک۔ اللہ کی قسم! ہدایتِ اسلام کی نعمت کے بعد میرے نزدیک اللہ کی سب سے بڑی نعمت مجھے یہ نصیب ہوئی کہ میں نے حضور ﷺ کے سامنے سچ بولا اور جھوٹ نہیں بولا۔اگر میں جھوٹ بول دیتا تو میں بھی دوسرے جھوٹ بولنے والوں کی طرح ہلاک ہوجاتا، کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے وحی اُترتے وقت جھوٹ بولنے والوں کے متعلق بڑے سخت کلمات ارشاد فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَکُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْھِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْھُمْ} سے لے کر {فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَO}تک ۔2 اب قسمیں کھائیں گے اللہ کی تمہارے سامنے جب تم پھر کر جائو گے ان کی طرف تاکہ تم ان سے درگزر کرو۔ سو تم در گزر کرو ان سے، بے شک وہ لوگ پلید ہیں، اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، بدلہ ہے ان کے کاموں کا۔ وہ لوگ قسمیںکھائیں گے تمہارے سامنے تاکہ تم اُن سے راضی ہو جائو۔ سو اگر تم راضی ہوگئے اُن سے تو اللہ راضی نہیں ہوتا نافرمان لوگوں سے۔ حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے حضور ﷺ کے سامنے جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے جھوٹے اَعذار بیان کیے اور حضور ﷺ نے انھیں قبول کر لیا اور اُن کو بیعت بھی فرمایا اور حضور ﷺ نے ان کے لیے استغفار بھی فرمایا۔ حضور ﷺ نے ہم تینوں کا معاملہ ان لوگوں سے مؤخر فرما دیا یہاں تک کہ اس بارے میں اللہ ہی نے فیصلہ فرمایا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے : {وَعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا}3 اس سے مراد ہم تینوں کا غزوہ سے پیچھے رہ جانا نہیں ہے ،بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں نے حضور ﷺ کے سامنے قسمیں کھائیں اور آپ کے سامنے جھوٹے عذر رکھے اور حضور ﷺ نے اُن کو قبول فرمالیا، اُن کا فیصلہ تو اسی وقت ہو گیا۔ اور ہم تینوں کے معاملہ کو حضور ﷺ نے مؤخر فرما دیا اور ہمارا فیصلہ بعد میں ہوا۔ 1جہاد کو چھوڑ کر گھر بار اور کاروبار میں لگ جانے والوں کو دھمکی حضرت ابو عمران ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ قسطنطنیہ میں تھے اور مصر والوں کے امیر حضرت عُقْبہ بن عامر ؓ تھے اور شام والوں کے امیر حضرت فضالہ بن عبید ؓ تھے۔ چناںچہ (قسطنطنیہ) شہر سے رومیوں کی ایک بہت بڑی فوج باہر نکلی، ہم اُن کے سامنے صف بنا کر کھڑے ہو گئے۔ ایک مسلمان نے رومیوں پر اس زور سے حملہ کیا کہ وہ اُن میں گھس گیا اور پھر ان میں سے نکل کر ہمارے پاس واپس آگیا۔ یہ دیکھ کر لوگ چِلّائے اور ( قرآن مجید کی آیت {وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ}2 کو سامنے رکھ کر ) کہنے لگے : سبحان اللہ! اس آدمی نے اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈال دیا۔ اس پر حضور ﷺ کے صحابی حضرت ابو ایوب اَنصاری ؓ کھڑے ہوکر فرمانے لگے: اے لوگو! تم اس آیت کا مطلب یہ سمجھتے ہو (کہ