حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھر انھوں نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ آگے پچھلی حدیث جیسا مضمون ذکر کیا ہے۔ 1شہادت کی تمنا اور اس کے لیے دعا کرنا حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر کچھ مؤمن ایسے نہ ہوتے جن کو میرے سے پیچھے رہ جانا بالکل پسند نہیں ہے، اور میرے پاس اتنی سواریا ں بھی نہیں ہیں جن پر میں اُن کو سوار کرا کر ہر سفر میں ساتھ لے جائوں، تو میں اللہ کے راستہ میں غزوہ کے لیے جانے والی کسی جماعت سے پیچھے نہ رہتا۔ اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میری یہ دلی آرزو ہے کہ مجھے اللہ کے راستہ میں شہید کیا جائے پھر مجھے زندہ کیا جائے، پھر شہید کیا جائے پھر مجھے زندہ کیا جائے، پھر شہید کیا جائے پھر مجھے زندہ کیا جائے، پھر مجھے شہید کیا جائے۔2 حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے راستہ میں نکلے اللہ تعالیٰ اس کی ضمانت لیتے ہیں۔ چناںچہ فرماتے ہیں کہ اس کا یہ نکلنا صرف میرے راستہ میں جہاد کرنے اور مجھ پر ایمان رکھنے اور میرے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے ہو تو یہ میرے ذمہ ہے کہ یا تو میں اسے جنت میں داخل کروں گا یا اسے اَجر و ثواب اور مالِ غنیمت دے کر اس کے اس گھر کو واپس کروں گا جس میں سے اب نکل کر آیا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے! جو زخم بھی مسلمان کو اللہ کے راستہ میں لگتا ہے قیامت کے دن وہ زخم اسی حالت میں ہوگا جو حالت زخمی ہونے کے وقت تھی۔ اس کا رنگ تو خون والا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک والی ہوگی۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! (سواری نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے) مسلمانوں پر میرا (انھیں مدینہ چھوڑ کر) غزوہ میں جانا گراں نہ ہوتا تو میں اللہ کے راستہ میں جانے والی کسی جماعت سے پیچھے نہ رہتا، لیکن (کیا کروں؟) نہ تو میرے پاس اُن کو سواری دینے کی گنجایش ہے، اور نہ اس کی ان کے پاس گنجایش ہے، اورمیرے سے پیچھے رہ جانے پر انھیں بہت زیادہ گرانی ہوتی ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! یہ میری دلی آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستہ میں جائوں اور مجھے قتل کر دیا جائے، پھر میں اللہ کے راستہ میں جائوں اور مجھے قتل کر دیا جائے، پھر میں اللہ کے راستہ میں جائوں اور مجھے قتل کر دیا جائے۔1 حضرت قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر ؓ نے لوگوں میں بیان فرمایا اور بیان میں یہ بات کہی کہ جنت ِعدن میں ایک محل ہے جس کے پانچ سو دروازے ہیں، اور ہر دروازے پر پانچ ہزار آہو چشم حوریں ہیں۔ اس میں (صرف تین قسم کے آدمی داخل ہوں گے: ایک تو) نبی داخل ہوگا۔ پھر حضور ﷺ کی قبر کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: