حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس میں چربی اور چکنائی بالکل نہ ہوتی، اور ہمیں جمعہ کے دن کی بڑی خوشی ہوتی ۔ 1 حضرت ابنِ ابی اوفیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضور ﷺ کے ساتھ سات غزوے ایسے کیے جن میں ہم ٹڈّی کھایاکرتے تھے۔2 حضرت ابو برزہ ؓ فرماتے ہیں: ہم ایک غزوہ میں تھے۔ ہمارا کچھ مشرکوں سے مقابلہ ہوا۔ ہم نے اُن کو شکست دے دی، وہ سب وہاں سے بھاگ گئے۔ ہم نے اُن کی جگہ پر قبضہ کر لیا تو وہاں راکھ پر روٹی پکانے کے تندوربھی تھے۔ ہم اُن کے تندور کی پکی ہوئی روٹیاں کھانے لگے۔ ہم نے جاہلیت میں یہ سنا تھاکہ جو( گندم کی ) روٹی کھائے گا وہ موٹا ہوجائے گا۔چناںچہ جب ہم نے یہ روٹیاں کھالیں تو ہم میں سے ہر آدمی اپنے بازوؤںکودیکھنے لگاکہ کیا وہ موٹا ہوگیا ہے۔3 امام ہیثمی نے فرمایا ہے کہ ایک روایت میں یہ ہے کہ ہم لوگ غزوۂ خیبر کے دن حضور ﷺ کے ساتھ تھے، ہمارا دشمن میدہ کی روٹیاں چھوڑ کربھاگ گیا۔4 حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے خیبر فتح کر لیا تو چند یہودیوں کے پاس سے ہمارا گزر ہوا جو اپنے تندور کی راکھ میں روٹیاںپکا رہے تھے۔ ہم نے اُن کو وہاں سے بھگایا، وہ روٹیاں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پھر ہم نے اُن روٹیوں کو آپس میں تقسیم کیا۔ مجھے بھی روٹی کا ایک ٹکڑا ملا جس کا کچھ حصہ جلا ہواتھا۔میںنے یہ سن رکھا تھا کہ جو (گندم کی) روٹی کھائے گا وہ موٹا ہوجائے گا۔چناںچہ روٹی کھا کر میں اپنے بازوؤںکو دیکھنے لگا کہ کیا میں موٹا ہوگیا ہوں۔5دعوت اِلی اللہ کی وجہ سے سخت پیاس کو برداشت کرنا حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ سے لوگوں نے عرض کیا کہ ہمیں ساعۃُالعُسْرۃ یعنی مشکل گھڑی (اس سے مراد غزوۂ تبوک ہے) کا کچھ حال بتائیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: ہم لوگ سخت گرمی میں غزوۂ تبوک کے لیے نکلے، ایک مقام پر پہنچ کر ہمیں اتنی سخت پیاس لگی کہ ہم سمجھنے لگے کہ ہماری گردنیں ٹوٹ جائے گی (یعنی ہم مرجائیں گے)۔ہم میں سے بعض کا تو یہ حال تھا کہ وہ کجاوہ کی تلاش میں جاتا تو واپسی میں اس کا اتنا برا حال ہوجاتا کہ وہ یوں سمجھنے لگتا کہ اس کی گردن ٹوٹ جائے گی۔اور بعض لوگوں نے اپنے اُونٹ ذبح کیے اور اس کی اوجھڑی میں سے پھوس نکال کر اسے نچوڑا اور اسے پیا، اور اس باقی پھوس کو اپنے پیٹ اور جگر پر رکھ لیا (تاکہ باہر سے کچھ ٹھنڈک اندرپہنچ جائے)۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ کا آپ کے ساتھ دستور یہ ہے کہ آپ کی دعا کو ضرور قبول فرماتے ہیں، اس لیے آپ ہمارے لیے دعا فرمائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں دعا کروں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں! چناںچہ حضور ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھائے (اور اللہ سے دعا مانگی) اور ابھی ہاتھ نیچے نہیں کیے تھے