حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تلوار ڈھال میں گڑ گئی اور نکل نہ سکی۔ پھر حضرت ابو دُجانہ نے تلوار کا وار کرکے اسے قتل کر دیا۔ پھر میں نے دیکھا کر حضرت ابو دُجانہ نے ہند بنتِ عتبہ کے سر کے اوپر تلوار اٹھا رکھی ہے لیکن پھر تلوار اس سے ہٹالی (اور اسے قتل نہ کیا)۔ حضرت زُبیر فرماتے ہیں کہ (میں نے حضرت ابو دُجانہ کی بہادری کے یہ کارنامے دیکھے تو) میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں (کہ کون اس تلوار کا زیادہ حق دار تھا )۔1 موسیٰ بن عقبہ کی روایت میں یہ ہے کہ حضور ﷺ نے جب اس تلوار کو لوگوں کے سامنے پیش کیا تو حضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے وہ تلوار مانگی۔ حضور ﷺ نے ان سے اِعراض فرمالیا۔ پھر حضرت زُبیر ؓ نے وہ تلوار مانگی حضور ﷺ نے ان سے بھی اِعراض فرمالیا ۔ تو ان دونوں حضرات نے اسے محسوس کیا۔ حضور ﷺ نے تیسری مرتبہ اسی تلوار کو پیش کیا تو حضرت ابو دُجانہ ؓ نے حضور ﷺ سے وہ تلوار مانگی۔ حضور ﷺ نے اُن کو تلوار دے دی۔ انھوں نے تلوار لے کر واقعی اس کا حق ادا کر دیا۔ حضرت کعب بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ اس جنگ میں گیا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ مشرکوں نے مسلمانوں کو قتل کرکے اُن کے ناک، کان کاٹ ڈالے ہیں تو میں کھڑا ہو گیا۔ اور کچھ دیر کے بعد آگے بڑھا تو میں نے ایک مشرک کو ہتھیار لگائے ہوئے دیکھا کہ وہ مسلمانوں کے پاس سے گزر تے ہوئے کہہ رہا ہے: اے مسلمانو! جیسے بکریاں (ذبح ہونے کے لیے) اِکٹھی ہو جاتی ہیں تم بھی (قتل ہونے کے لیے) اِکٹھے ہو جائو۔ ادھر ایک مسلمان ہتھیار لگائے ہوئے اس کافر کا انتظار کر رہا تھا۔ پھر میں وہاں سے چلا اور اس مسلمان کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور دیکھ کر اس کافر اوراس مسلمان کا اندازہ لگانے لگا تو یہی نظر آیا کہ کافر کے ہتھیار اور اس کی لڑائی کے لیے تیاری زیادہ ہے۔ میں دونوں کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ دونوں کا آمنا سامنا ہوگیا اور مسلمان نے اس کافر کے کندھے پر اس زور سے تلوار ماری جو اسے چیرتی ہوئی اس کے سرین تک چلی گئی اور وہ کافر دو ٹکڑے ہوگیا۔ پھر مسلمان نے اپنے چہرے سے (نقاب) ہٹا کر کہا: اے کعب! تم نے کیا دیکھا؟ میں ابو دُجانہ ہوں۔1حضرت قتادہ بن نعمان ؓ کی بہادری حضرت قتادہ بن نعمان ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کو ہدیہ میں ایک کمان ملی، آپ نے وہ کمان اُحد کے دن مجھے دے دی۔ میں اس کمان کو لے کر حضور ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کر خوب تیر چلاتا رہایہاں تک کہ اس کا سِرا ٹوٹ گیا۔ میں برابر حضور ﷺ کے چہرے کے سامنے کھڑا رہا اور میں اپنے چہرے پر تیروں کو لیتا رہا۔ جب بھی کوئی تیر آپ کے چہرے کی طرف مڑجاتا تو میں اپنے سر کو گھما کر تیر کے سامنے لے آتا اور حضور ﷺ کے چہرے کو بچا لیتا (چوں کہ میری کمان ٹوٹ چکی تھی اس لیے )میں تیر تو چلا نہیں سکتا تھا۔ پھر آخر میں مجھے ایک تیر ایسا لگا جس سے میری آنکھ کا ڈیلا ہاتھ پر