حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آدمی بھیجا ۔ انھوں نے حضورﷺ کو سو زِرہیں مع سارے سامان کے بطور عاریت دیں۔ انھوں نے کہا: مجھ سے یہ زِرہیں میری خوشی سے لینا چاہتے ہیں یا زبردستی؟ حضورﷺ نے فرمایا: ہم بطور ِعاریت لینا چاہتے ہیں جو واپس کردیں گے۔ چناںچہ انھوں نے وہ زِرہیں عاریتاً دے دیں۔ حضورﷺ کے فرمانے پر وہ یہ زِرہیں اپنی سواری پر لاد کر حنین لے گئے۔ وہ غزوۂ حنین و طائف میں شریک رہے پھر وہاں سے حضورﷺ جَعِرَّانہ واپس آئے۔ حضورﷺ چل پھر کر مالِ غنیمت کو دیکھ رہے تھے، صفوان بن اُمیَّہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ صفوان بن اُمیَّہ نے بھی دیکھنا شروع کیا کہ جَعِرَّانہ کی تمام گھاٹی جانوروں، بکریوں اور چرواہوں سے بھری ہوئی ہے اور بڑی دیر تک غور سے دیکھتے رہے۔ حضورﷺ بھی اُن کو کنکھیوں سے دیکھتے رہے۔ آپ نے فرمایا: اے ابو وہب! کیا یہ (مالِ غنیمت سے بھری ہوئی) گھاٹی تمہیں پسند ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: یہ ساری گھاٹی تمہاری ہے اور اس میں جتنا مالِ غنیمت ہے وہ بھی تمہارا ہے۔ یہ سن کر صفوان نے کہا: اتنی بڑی سخاوت کی ہمت صرف نبی ہی کرسکتاہے اور کلمۂ شہادت أَشْہَدُ أَنْ لَّا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ پڑھ کر وہیں مسلمان ہوگئے۔1 حضرت صفوان بن اُمیَّہؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ان سے زِرہیں غزوۂ حنین کے دن بطورِ عاریت کے طلب فرمائیں۔ انھوں نے کہا: اے محمد! کیا آپ چھین کر لینا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:نہیں، میں تو بطورِ عاریت کے اپنی ذمہ داری پر لینا چاہتا ہوں(اگر ضائع ہوں گی تو ان کا تاوان دوں گا)۔ چناں چہ کچھ زِرہیں ضائع ہوگئیں۔ حضورﷺ نے اُن کو تاوان دینا چاہا توحضرت صفوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آج تو میرے دل میں اِسلام کا شوق ہے (مال لینے کا نہیں ہے)۔ 1حضرت حُویْطِب بن عبدالعزّیٰؓ کے اِسلام لانے کا قصہ حضرت مُنذِر بن جہم فرماتے ہیں کہ حضرت حُوَیْطِب بن عبدالعزّیٰ ؓ نے بیان کیا کہ جب حضورﷺ فتحِ مکہ کے سال مکہ میں داخلہ ہوگئے تو مجھے بہت ہی خوف محسوس ہوا۔ چناںچہ میں اپنے گھر سے نکل گیا اور اپنے اَہل و عیال کو چند ایسی جگہوں میں تقسیم کردیا جہاں وہ بحفاظت رہ سکیںاور خود عوف کے باغ میں جا پہنچا۔ ایک دن اچانک وہاں حضرت ابوذر غِفاری ؓ آگئے۔ میری اُن سے پرانی دوستی تھی اور دوستی ہمیشہ کام آیا کرتی ہے، لیکن میں اُن کو دیکھتے ہی (ڈر کے مارے ) بھاگ کھڑا ہوا۔ انھوں نے مجھے پکارا: اے ابو محمد! میں نے کہا: لبیک، حاضر ہوں۔ انھوں نے کہا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا: ڈر کے مارے (بھاگ رہا ہوں)۔ انھوں نے کہا: ڈرو مت، تم اب اللہ تعالیٰ کی اَمان میں ہو۔ (یہ سن کر ) میں اُن کے پاس واپس آگیا اورانھیں سلام کیا۔ انھوں نے کہا: اپنے گھر جاؤ۔ میں نے کہا:کیا میرے لیے اپنے گھر جانے کا کوئی راستہ ہے؟ اللہ کی قسم !میرا تو یہ خیال ہے کہ میں اپنے گھر زندہ نہیں پہنچ سکتا ہوں۔ اول تو راستہ میں ہی قتل کردیا جاؤں گا، اور اگر کسی