حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا تھا؟ چناںچہ میں نے سارا واقعہ حضور ﷺ کو اسی طرح سنایا جس طرح میں نے تم دونوں سے بیان کیا۔ جب میں سارا واقعہ بیان کر چکا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: تیرا بھلا ہو! تم اپنا چہرہ مجھ سے چھپا لو میں تمہیں آیندہ کبھی نہ دیکھوں (یعنی تم سامنے مت آیا کرو اس سے میرے چچا کے قتل کا غم تازہ ہو جاتا ہے)۔ چناںچہ حضورﷺ جہاں ہوا کرتے تھے میں وہاں سے ہٹ جایا کرتا تھا تاکہ حضور ﷺ کی نظر مجھ پر نہ پڑے۔ اور حضور ﷺ کی وفات تک میں ایسے ہی کرتا رہا۔ جب مسلمان یمامہ والے مُسَیْلمہ کذّاب سے مقابلہ کے لیے چلے تو میں بھی اُن کے ساتھ گیا۔ اور میں نے اپنے جس نیزے سے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا اس نیزے کو بھی ساتھ لے لیا۔ جب دونوں لشکروں میں لڑائی شروع ہوئی تو میں نے دیکھا کہ مُسَیْلمہ کھڑا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میں تلوار ہے اور میں اس کو پہچانتا نہیں تھا۔ میں اسے مارنے کی تیاری کر نے لگا اور دوسری طرف سے ایک اَنصاری آدمی بھی اسے مارنے کی تیاری کرنے لگا۔ ہم دونوں اسی کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ چناںچہ میں نے اپنے نیزے کو حرکت دی اور جب مجھے اطمینان پورا ہوگیا کہ نیزہ نشانے پر لگے گا تو وہ نیزہ میں نے اس کی طرف پھینکا جو اسے جا کر لگا، اور اَنصاری نے بھی اس پر حملہ کیا اور اس پر تلوار کا بھرپور وار کیا۔ تمہارا ربّ ہی زیادہ جانتا ہے کہ ہم دونوں میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے۔ اگر میں نے اسے قتل کیا ہے تو پھر میں نے ایک تو وہ آدمی قتل کیا ہے جو حضور ﷺ کے بعد تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہترین تھا، اور ایک وہ آدمی قتل کیا ہے جو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ برا ہے۔1 اسی جیسی حدیث امام بخاری نے حضرت جعفر بن عمرو سے روایت کی ہے، اور اس میں یہ مضمون بھی ہے کہ جب دونوں لشکر جنگ کے لیے صف بنا کر کھڑے ہو گئے تو سِباع لشکر سے باہر نکلا اور بلند آواز سے کہا کہ کوئی میرے مقابلہ پر آنے کے لیے تیار ہے؟ چناںچہ اس کے مقابلہ کے لیے حضرت حمزہ بن عبد المطّلب ؓ مسلمانوں کے لشکر سے باہر نکلے اور اس سے کہا کہ اے سباع! اے عورتوں کا ختنہ کرنے والی عورت اُمّ انمار کے بیٹے! کیا تم اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کر رہے ہو؟ پھر حضرت حمزہ نے سباع پر ایک زور دار حملہ کر کے اسے ایسے مٹا دیا جیسے کہ گزرا ہوا دن ہوتا ہے ۔حضرت عباس بن عبد المطّلب ؓ کی بہادری حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حنظلہ بن ربیع ؓ کو غزوۂ طائف کے دن طائف والوں کے پاس بھیجا۔ چناںچہ حضرت حنظلہ نے اُن طائف والوں سے بات کی۔ طائف والے انھیں پکڑ کر اپنے قلعہ میں لے جانے لگے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو اُن آدمیوں سے حضرت حنظلہ کو چھڑا کر لائے؟ جو چھڑا کر لائے گا اسے ہمارے اس غزوے جیسا پورا اَجر ملے گا۔ اس پر صرف حضرت عباس بن عبد المطّلب ؓ کھڑے ہوئے اور طائف والے حضرت حنظلہ کو