حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے مجھے امن دے دیا تو تم قریب ہی ہوگے، اور اگر انھوں نے مجھے قتل کر دیا تو اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جانا۔ چناںچہ وہاں جا کر حضرت حرام نے ان لوگوں سے کہا کہ کیا تم لوگ مجھے امن دیتے ہو تاکہ میں رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچا سکوں؟ یہ ان لوگوں سے بات کر رہے تھے کہ انھوں نے ایک آدمی کو اشارہ کیا جس نے پیچھے سے آ کر ان کو نیزہ مارا۔ ہمام راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ آگے یہ الفاظ تھے کہ ایسا نیزہ مارا جو کہ پار ہوگیا۔ یہ دیکھ کر حضرت حرام نے فرمایا کہ ربّ ِکعبہ کی قسم! میں تو کامیاب ہوگیا۔ یہ دیکھ کر حضرت حرام کے دونوں ساتھی مسلمانوں سے جا ملے اور لنگڑے صحابی کے علاوہ باقی تمام ساتھی شہید کر دیے گئے اور وہ لنگڑے صحابی ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے ہوئے تھے۔ ان شہید ہونے والوں کے بارے میں ہمارے سامنے یہ آیت نازل ہوئی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی: إِنَّا لَقَدْ لَقِیْنَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا۔ بے شک ہم اپنے ربّ سے جا ملے، وہ ہم سے راضی ہوا اور اس نے ہمیں راضی کیا ۔ چناںچہ نبی کریم ﷺ نے تیس دن رِعل اور ذکوان اور بنو لِحیان اور عُصَیَّہ قبیلوں کے خلاف بد دعا فرمائی۔ یہ قبیلے وہ ہیں جنھوں نے اللہ ا ور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی۔1 ’’بخاری ‘‘میں ہے کہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب اُن کے ماموں حضرت حرام بن ملحان ؓکو بیرِ معونہ کے دن نیزہ مارا گیا تو وہ اپنا خون لے کر اپنے منہ اور سر پر ڈالنے لگے، پھر فرمایا: ربّ ِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ اور واقدی نے بیان کیا ہے کہ جس آدمی نے حضرت حرام ؓکو نیزہ مارا تھا وہ جبار بن سُلَمِیکلابی ہیں۔ جب جبار نے پوچھا کہ (حضرت حرام تو قتل ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ) میں کامیاب ہو گیا، اس جملہ کا کیا مطلب ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ جنت ملنے کی کامیابی ہے۔ پھر جبار نے کہا: اللہ کی قسم! حضرت حرام نے سچ فرمایا اور یہ جبار اسی وجہ سے اس کے بعد مسلمان ہوگئے ۔ 1غزوۂ مُوْتہ کا دن حضرت عروہ بن زُبیر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ہجرت کے آٹھویں سال جمادی الاولیٰ میں ایک لشکر موتہ بھیجا اور حضرت زید بن حارثہ ؓکو اُن کا امیر بنایا اور فرمایا: اگر حضرت زید شہید ہو جائیں تو حضرت جعفر بن ابی طالب امیر ہوں گے، اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو پھر لوگوں کے امیر حضرت عبد اللہ بن رواحہ ہوں گے۔ لوگ سامانِ سفر لے کر نکلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس لشکر کی تعداد تین ہزار تھی۔ جب یہ لوگ (مدینہ سے) روانہ ہونے لگے تو (مدینہ کے) لوگوں نے حضور ﷺ کے مقرر کردہ امیروں کو رخصت کیا اور انھیں اَلوداعی سلام کیا۔ اس اَلوداعی ملاقات پر حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ رو پڑے تو لوگوں نے کہا: آپ کیوں رو رہے ہیں اے ابنِ رواحہ؟انھوں نے کہا: غور سے سنو، اللہ کی قسم! نہ تو