حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(غیبی )اِنتظام ہے۔ اور میں نے جو کچھ دیکھا تھا اس کا کسی سے تذکرہ نہیں کیا۔ چناںچہ شکست کھا کر ہم مکہ واپس آگئے۔ پھر بعد میں قریش ایک ایک کرکے مسلمان ہوتے رہے۔ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر میں بھی موجود تھا اور صلح کرانے میں میں بھی بھاگ دوڑ کرتا رہا یہاں تک کہ صلح نامہ مکمل ہوگیا اور ان تمام باتوں سے اِسلام کو ترقی ہوتی رہی، کیوں کہ اللہ تعالیٰ صرف اسی چیز کو وجود دیتے ہیں جسے وہ چاہتے ہیں۔ اس صلح نامہ کا آخری گواہ میں تھا۔ اور میں نے (اپنے دل میں )کہا کہ قریش حضور ﷺ کو زبانی جمع خرچ سے واپس بھیج کر اگرچہ اس وقت خوش ہورہے ہیں لیکن ان کو آیندہ حضور ﷺ کی طرف سے برے حالات ہی دیکھنے پڑھیں گے۔ اگلے سال جب حضور ﷺ عمرہ کی قضا کرنے کے لیے مکہ تشریف لائے اور سارے قریش مکہ سے باہرچلے گئے تو میں اور سہیل بن عمرو اورکچھ لوگ اس لیے مکہ ٹھہر گئے تاکہ وقت کے ختم ہونے پر ہم لوگ حضور ﷺ کو مکہ سے واپس جانے کو کہیں۔ چناں چہ جب تین دن گزرگئے تو میں نے اور سہیل بن عمرو نے جاکر کہا کہ شرط کے مطابق آپ کا وقت پورا ہوگیاہے، آپ ہمارے شہر سے چلے جائیں۔ آپ نے فرمایا: اے بلال! (یہ اعلان کردو کہ)جتنے مسلمان ہمارے ساتھ آئے ہیں وہ سورج ڈوبنے سے پہلے ہی مکہ سے نکل جائیں۔ 1حضرت حارث بن ہِشام ؓ کے اِسلام لانے کا قصہ حضرت عبداللہ بن عِکْرِمہ فرماتے ہیں کہ فتحِ مکہ کے دن حارث بن ہشام اور عبداللہ بن ابی ربیعہ حضرت اُمّ ہانی بنتِ ابی طالب ؓ کے پاس آئے۔ ان دونوں نے ان سے پناہ مانگی اور یوں کہا: ہم تمہاری پناہ میں آنا چاہتے ہیں۔ حضرت اُمّ ہانی نے ان دونوں کو پناہ دے دی۔ پھر حضرت علی بن ابی طالب ؓ وہاں آئے۔ ان کی نظر ان دونوں پر پڑی، وہ اپنی تلوار نکال کر ان پر حملہ کرنے کے لیے جھپٹ پڑے، تو حضرت اُمّ ہانی(ان دونوں کو بچانے کے لیے) حضرت علی سے لپٹ گئیں اور کہنے لگیں: تمام لوگوں میں سے تم ہی میرے ساتھ ایسا کرنے لگے ہو۔ اگر تم نے مارنا ہی ہے تو پہلے مجھے مارو۔ حضرت علی (رک گئے اور) اُن کو یہ کہہ کر چلے گئے کہ تم مشرکوں کو پناہ دیتی ہو۔ حضرت اُمّ ہانی فرماتی ہیں: میں نے حضورﷺ کی خدمت میں جاکر عرض کیا: یا رسول اللہ !میرے ماں جائے بھائی حضرت علی نے میرے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے کہ میرا بچنا مشکل ہوگیا تھا۔ میں نے اپنے دو مشرک دیوروں کو پناہ دی تھی، وہ تو قتل کرنے کے لیے اُن پر جھپٹ پڑے۔ حضورﷺ نے فرمایا: انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، جس کو تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دے دی، جسے تم اَمن دیا اسے ہم نے بھی اَمن دے دیا۔ حضرت اُمِّ ہانی ؓ نے واپس آکر ان دونوں کو ساری بات بتائی، وہ دونوں اپنے گھروں کو چلے گئے۔ لوگوں نے آکر