حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیے روانہ ہوگئے۔ 1حضرت ابو حدرد یا حضرت عبد اللہ بن ابی حدرد ؓ کی بہادری حضرت ابنِ ابی حدرد ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی قوم کی عورت سے نکاح کیا اور اس کا مہر دو سو درہم مقرر کیا، پھر حضور ﷺ کی خدمت میں مہر میں اِمداد لینے کے لیے حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: تم نے کتنا مہر مقرر کیا ہے؟ میں نے کہا: دو سو درہم۔ آپ نے (اس مقدار کو میری حیثیت سے زیادہ سمجھتے ہوئے) فرمایا: سبحان اللہ! اگر تم وادی کی کسی عورت سے نکاح کرتے تو تمہیں اتنا زیادہ مہر نہ دینا پڑتا (تم نے اپنی قوم میں شادی کی ہے اس لیے اتنا زیادہ مہر دینا پڑ رہا ہے جو تمہاری حیثیت سے زیادہ ہے)۔ اللہ کی قسم! تمہاری مدد کرنے کے لیے اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں چند دن (انتظار میں) ٹھہرا رہا۔ پھر قبیلہ جثم بن معاویہ کا ایک آدمی آیا جس کا نام رِفاعہ بن قیس یا قیس بن رِفاعہ تھا۔ وہ قبیلہ جثم کے بڑے خاندان کو ساتھ لے کر آیا اور (مدینہ کے قریب) مقام ِ غابہ میں اپنی قوم اور ساتھیوں کو لے کر ٹھہر گیا۔ وہ قبیلہ قیس کو حضور ﷺ سے لڑنے کے لیے جمع کرنا چاہتا تھا اور قبیلہ جثم میں اس کا بڑا نام اور اونچا مقام تھا۔ حضور ﷺ نے مجھے اور دو اور مسلمانوں کو بلایا اور فرمایا: تم لوگ جائو اور اس آدمی کے بارے میں پورے حالات معلوم کر کے آئو۔ حضور ﷺ نے ہمیں ایک دُبلی اور بوڑھی اُونٹنی عطا فرمائی۔ ہمارا ایک آدمی اس پر سوار ہوا تو اللہ کی قسم! وہ کمزوری کی وجہ سے اسے لے کر کھڑی نہ ہو سکی۔ تو کچھ آدمیوں نے اسے پیچھے سے سہارا دیا تب وہ کھڑی ہوئی ورنہ خود سے تو کھڑی نہ ہو سکتی تھی۔ اور آپ نے فرمایا: اسی پر بیٹھ کر تم وہاں پہنچ جائو۔ (چناںچہ حضور ﷺ کے اس اِرشاد کی برکت سے ان حضرات نے اسی اُونٹنی پر یہ سفر پورا کر لیا۔ اللہ نے اس کمزور اُونٹنی کو اتنی طاقت عطا فرما دی) چناںچہ ہم چل پڑے اور ہم نے اپنے ہتھیار تیر اور تلوار وغیرہ ساتھ لے لیے اور عین غروب کے وقت ان لوگوں کی قیام گاہ کے قریب پہنچے۔ میں ایک کونے میں چھپ گیا اور میں نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا تو وہ بھی اُن کی قیام گاہ کے دوسرے کونے میں چھپ گئے۔ اور میں نے ان سے کہا: جب تم دونوں سنو کہ میں نے زور سے اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہہ کر اس لشکر پر حملہ کر دیا ہے تو تم دونوں بھی زور سے اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہہ کر حملہ کر دینا۔ اللہ کی قسم! ہم اسی طرح چھپے ہوئے انتظار کر رہے تھے کہ کب ہم انھیں غافل پاکر ان پر حملہ کر دیں یا کو ئی اور موقع مل جائے ۔ رات ہو چکی تھی اور اس کی تاریکی بڑھ چکی تھی۔ اس قبیلہ کا ایک چرواہا صبح سے جانور لے کر گیا ہوا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا تھا تو انھیں اس کے بارے میں خطرہ ہوا۔ اُن کا سردار رِفاعہ بن قیس کھڑا ہوا اور تلوار لے کر اپنے گلے میں ڈال لی اور کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے چرواہے کے بارے میں پکی بات معلوم کر کے آتا ہوں، اسے ضرور کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔