حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جب تک مسلمانوں کے دین کو اختیار نہیں کروگے اس وقت تک مسلمانوں کی امانت کو سنبھالنے کے لیے تم سے مدد لینا میرے لیے حلال نہیں ہے۔ میں ہمیشہ اِنکار کرتا رہا۔ آپ فرمادیتے: دین میں جبر نہیں ہے۔ جب آپ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو میں عیسائی ہی تھا، آپ ؓنے مجھے آزاد کر دیا اور فرمایا: جہاں تیرا جِی چاہے چلا جا۔ (حضرت اَسبق بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) 1 حضرت اَسلم کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ ملکِ شام میں تھے تو میں وضو کا پانی لے کر حضرت عمر بن خطابؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا: تم یہ پانی کہاں سے لائے ہو؟ میں نے ایسا میٹھا پانی کبھی نہیں دیکھا اور بارش کا پانی بھی اس سے عمدہ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا: میں اس نصرانی بڑھیا کے گھر سے لایا ہوں۔ وضو سے فارغ ہوکر آپ اس بڑھیا کے پاس گئے اور اس سے کہا: اے بڑی بی! اِسلام لے آؤ، اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق دے کر بھیجا ہے۔ اس نے اپنا سر کھول کر دکھایا تو ثَغَامہ بوٹی (کے پھولوں ) کی طرح اس کے بال بالکل سفید تھے۔ اور اس نے کہا: میں بہت بوڑھی ہوچکی ہوں اور بس اب مرنے ہی والی ہوں (یعنی اب اِسلام لانے کا وقت نہیں رہا )۔ حضرت عمر نے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہنا ۔ 2حضرت مُصْعَب بن عمیر ؓ کا اِنفرادی دعوت دینا حضرت عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم اور دیگر حضرات کہتے ہیں کہ حضرت اَسعد بن زُرارہ ؓ حضرت مُصْعَب بن عمیر ؓ کو بنو عبدالاشہل اور بنو ظفر کے محلوں میں لے گئے۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ حضرت اَسعد بن زُرارہ ؓ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ حضرت اَسعد حضرت مُصْعَب کو بنو ظفر کے ایک باغ میں مَرَق نامی کنویں پر لے گئے۔ یہ دونوں حضرات باغ میں جاکر بیٹھ گئے ۔ سارے مسلمان مرد اُن کے پاس جمع ہوگئے۔ حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اُسید بن حضیر دونوں اس وقت اپنی قوم بنو عبدالاشہل کے سردار تھے اور دونوں مشرک تھے اور اپنی قوم کے مذہب پر قائم تھے۔ ان دونوں نے جب حضرت مُصْعَب اور حضرت اَسعد کے باغ میں مجلس لگانے کی خبر سنی ، حضرت سعد نے حضرت اُسید سے کہا: تیرا باپ نہ رہے! تم ان دونوں آدمیوں کے پاس جاؤ جنھوں نے ہمارے محلوں میں آکر ہمارے کمزوروں کو بے وقوف بنانا شروع کردیا ہے۔ انھیں ڈانٹو اور انھیں ہمارے محلوں میں آنے سے روک دو۔ اگر اَسعد بن زُرارہ کا مجھ سے قریبی رشتہ نہ ہوتا جیسے کہ تمہیں معلوم ہے تو یہ کام میں خود ہی کرلیتا تمہیں نہ بھیجتا۔ وہ میرا خالہ زاد بھائی ہے، ان کے پاس جانے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ چناں چہ حضرت اُسید بن حضیر اپنا نیزہ لے کر ان دونوں کے پاس گئے ۔ جب حضرت اَسعد بن زُرارہ نے حضرت اُسید کو آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے حضرت مُصْعَب سے کہا: یہ اپنی قوم کا سردار ہے اور تمہارے پاس آرہا ہے، تم ان کے ساتھ