حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس رات بہت تیز ہوا چل رہی تھی اور سخت سردی پڑ رہی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: کیاکوئی ایساآدمی ہے جو میرے پاس دشمنوں کی خبر لے کر آئے، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا؟ پھر آگے حضرت عبدالعزیز کی گزشتہ حدیث جیسی حدیث مختصر ذکر کی ہے، اوراس حدیث میں یہ بھی ہے کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں واپس آیا اور واپس آتے ہی سردی لگنے لگ گئی اور مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی۔ میں نے آپ کو (دشمنوں کے تمام حالات) بتائے۔ آپ جو چوغہ پہن کر نماز پڑھ رہے تھے اس کا ایک کنارہ میرے اوپر ڈال دیا۔ میں صبح تک سوتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: اے سوؤ! اُٹھ ۔1 ابنِ اسحاق نے اس حدیث کو محمد بن کعب قرظی سے منقطعاً نقل کیا ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں: کون آدمی ایسا ہے جو کھڑا ہوکر دیکھ آئے کہ دشمن کیا کررہا ہے ؟ اور پھر ہمارے پاس واپس آئے ۔ آپ نے جانے والے کے لیے واپس آنے کی شرط لگائی (کہ اسے ضرور واپس آنا ہوگا) میں اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ جنت میں میراساتھی بن جائے، (لیکن) سخت خوف اور سخت بھوک اور سخت سردی کی وجہ سے کوئی بھی نہ کھڑا ہوا۔دعوت اِلی اللہ کی وجہ سے زخموں اور بیماریوں کو برداشت کرنا حضرت ابوالسائب ؓ فرماتے ہیں کہ بنو عبد الاشہل کے ایک آدمی نے کہا کہ میں اور میرابھائی غزوۂ اُحد میں شریک ہوئے۔ ہم دونوں (وہاںسے) زخمی ہوکر واپس ہوئے۔ جب حضور ﷺ کے منادی نے دشمن کے تعاقب میں چلنے کا اعلان کیا تو میں نے اپنے بھائی سے کہا، یا میرے بھائی نے مجھ سے کہا: کیاہم اس غزوہ میں حضور ﷺ کے ساتھ جانے سے رہ جائیں گے؟ ( نہیں، بلکہ ضرور ساتھ جائیں گے) اللہ کی قسم!ہمارے پاس سوار ہونے کے لیے کوئی سواری نہ تھی، اورہم دونوں بھائی بہت زیادہ زخمی اور بیمار تھے۔ بہرحال ہم دونوں حضور ﷺ کے ساتھ چل دیے۔ میں اپنے بھائی سے کم زخمی تھا۔ جب چلتے چلتے میرابھائی ہمت ہارجاتاتو میں کچھ دیر کے لیے اسے اُٹھا لیتا پھر کچھ دیر وہ پیدل چلتا، (ہم دونوں اس طرح چلتے رہے اور میں بھائی کوبارباراٹھاتا رہا)یہاں تک کہ ہم بھی وہاں پہنچ گئے جہاںباقی مسلمان پہنچے تھے۔ 1 ابنِ سعد نے واقدی سے اس طرح نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن سہل ؓ اور اُن کے بھائی رافع بن سہل ؓ دونوں زخمی حالت میں ایک دوسرے کواُٹھاتے ہوئے حمراء ُ الاسد پہاڑی تک پہنچے اور ان دونوں کے پاس کوئی سواری نہ تھی۔2 بنوسَلِمہ کے چند مُعَمّر اور بزرگ حضرات فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن جموح ؓ بہت زیادہ لنگڑے تھے اور اُن کے شیر جیسے چار جوان بیٹے تھے جو حضور ﷺ کے ساتھ تمام لڑائیوں میں شریک ہوتے۔ جب اُحد کا موقع آیا تو انھوں نے اپنے والد کو (لڑائی کی شرکت سے) روکنا چاہا اور کہا: اللہ نے آپ کو معذور قرار دیاہے۔ انھوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں