حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایسی تھیں جن کو میں نے آپ میں ابھی تک آزمایا نہیں تھا۔ ایک یہ کہ نبی کی بُردبادی اس کے جلد غصہ میں آجانے پر غالب ہوتی ہے، دوسری یہ کہ نبی کے ساتھ جتنا نادانی کا معاملہ کیا جائے گا اس کی بُردباری اتنی بڑھتی جائے گی ۔اور اب میں نے ان دونوں باتوں کو بھی آزمالیا ہے۔ اے عمر ! میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں اللہ کے ربّ ہونے پر اور اِسلام کے دین ہونے پر اور محمدﷺ کے نبی ہونے پر دل سے راضی ہوں، اور اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میرا آدھا مال محمدﷺ کی ساری اُمت کے لیے وقف ہے اور میں مدینہ میں سب سے زیادہ مال دار ہوں۔ حضرت عمر نے فرمایا:ساری اُمت کے بجائے بعض اُمت کہو ،کیوںکہ تم ساری اُمت کو دینے کی گنجایش نہیں رکھتے ہو ۔میں نے کہا: اچھا، بعض اُمت کے لیے وقف ہے۔ وہاں سے حضرت عمر اور حضرت زید حضورﷺ کی خدمت میں واپس گئے اور حضرت زید نے پہنچتے ہی کہا: أَشْہَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ اورحضورﷺ پر ایمان لے آئے اور آپ کی تصدیق کی اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور حضورﷺ کے ساتھ بہت سے غزوات میںشریک رہے۔ اور غزوۂ تبوک میں واپس آتے ہوئے نہیں بلکہ آگے بڑھتے ہوئے انھوں نے وفات پائی۔ اللہ تعالیٰ حضرت زیدؓ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے! 1صلحِ حدیبیہ کا قصہ حضرت مِسْور بن مخرمہ اور مروان ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ راستہ میںایک جگہ حضورﷺ نے فرمایا کہ خالد بن ولید قریش کے سواروں کی ایک جماعت لے کر مقامِ غمیم پر حالات معلوم کرنے کے لیے آئے ہوئے ہیں، لہٰذا تم دائیں طرف کو ہوجاؤ۔ اللہ کی قسم! حضرت خالد کو حضورﷺ کے قافلہ کی خبر اس وقت ہوئی جب کہ یہ لوگ عین ان کے سر پر پہنچ گئے اور انھیں اس قافلہ کا غبار نظر آیا۔ جب حضرت خالد کو پتہ چلا تو انھوں نے گھوڑا دوڑا کر قریش کو آپ کی آمد کی اطلاع دی۔ حضورﷺ چلتے رہے یہاں تک کہ جب آپ اس گھاٹی پر پہنچے جہاں سے مکہ کی طرف راستہ جاتا تھا تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ اس اونٹنی کا نام قَصْواء تھا۔ لوگوں نے(اسے اٹھانے کے لیے عرب کے رواج کے مطابق) حَلْ حَلْ کہالیکن وہ بیٹھی رہی، تو لوگوں نے کہا: قَصْواء اَڑ گئی ہے، قَصْواء اَڑ گئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ قَصْواء اَڑی نہیں ہے اور نہ اس طرح اَڑ جانا اس کی عادت ہے بلکہ اس کو اسی ذات نے روکا ہے جس نے ہاتھیوں کو روکا تھا یعنی اللہ نے۔ پھر آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! کفار ِمکہ مجھ سے جو نسی بھی ایسی تجویز کا مطالبہ کریں گے جس سے وہ اللہ کی قابلِ احترام چیزوں کی تعظیم کررہے ہوں گے،میںاُن کی ایسی تجویز کو ضرور مان لوں گا۔