حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بات تین مرتبہ کہی۔ آپ نے فرمایا: میں بھی تم کو وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف ؑ نے (اپنے بھائیوں کو ) کہا تھا: {لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْْکُمُ الْیَوْمَ ط یَغْفِرُ اللّٰہُُ ز لَـکُمْ وَہُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ} کچھ اِلزام نہیں تم پر آج، بخشے اللہ تم کو، اور وہ ہے سب مہربانوں سے مہربان۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: (آپ کی یہ بات سن کر) وہ کفارِ مکہ مسجد سے نکلے اور وہ اتنے خوش تھے کہ جیسے ان کو قبروں سے نکالا گیا ہو اور پھر وہ اِسلام میں داخل ہوگئے۔ اِمام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس قصہ میں امام شافعی نے حضرت امام ابو یوسف سے یہ نقل کیا ہے کہ جب کفار مسجد میں جمع ہوگئے تو حضورﷺ نے ان سے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے؟ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا ؟ انھوں نے کہا: (آپ ہمارے ساتھ) بھلا کریں گے۔ آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جاؤ تم سب آزاد ہو۔1حضرت عِکرمہ بن ابی جہلؓ کے اِسلام لانے کا قصہ حضرت عبداللہ بن زُبیر ؓ فرماتے ہیں کہ فتحِ مکہ کے دن حضرت عِکْرِمہ بن ابی جہلؓ کی بیوی اُمِّ حکیم بنت الحارث بن ہشام ؓمسلمان ہوگئیں۔ پھر حضرت اُم حکیم نے کہا: یا رسول اللہ ! عِکْرِمہ آپ سے ڈر کر یمن بھاگ گئے ہیں، انھیں ڈر تھا کہ آپ انھیں قتل کردیں گے۔ آپ اُن کو اَمن دے دیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: انھیں امن ہے۔ اپنے ساتھ اپنا رومی غلام لے کر وہ عِکْرِمہ کی تلاش میں نکلیں۔ اس غلام نے حضرت اُم حکیم کو پھسلانا چاہا، وہ اسے امید دلاتی رہیں یہاں تک کہ قبیلہ عُکْ میں پہنچ گئیں تو انھوں نے اس قبیلہ والوں سے اس غلام کے خلاف مدد طلب کی، انھوں نے اس غلام کو رسیوں میں جکڑ دیا۔ حضرت اُمِّ حکیم عِکْرِمہ کے پاس جب پہنچیں تو وہ تہامہ کے ایک ساحل پر پہنچ کر کشتی پر سوار ہوچکے تھے اور کشتی بان اُن سے کہہ رہا تھا کہ کلمۂ اِخلاص پڑھ لو۔ عِکْرِمہ نے پوچھا : میں کیا کہوں ؟ اس نے کہا: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُکہو۔ عِکْرِمہ نے کہا: میں تو صرف اسی کلمہ سے ہی بھاگ رہا ہوں۔ اتنے میں حضرت اُمّ حکیم وہاں پہنچ گئیں اور (کپڑے ہلاکر ) ان کی طرف اشارہ کرنے لگیں (یا اُن پر اصرار کرنے لگیں) اور وہ ان سے کہہ رہی تھیں: اے میرے چچازاد بھائی! میں تمہارے پاس ایسی ذات کے پاس سے آرہی ہوں جو لوگوں میں سب سے زیادہ جوڑ لینے والے اور سب سے زیادہ نیکی کرنے والے اور سب سے زیادہ بہترین انسان ہیں۔ اپنے آپ کو ہلاک مت کرو۔ چناں چہ عِکْرِمہ یہ سن کر رک گئے اور وہ اُن کے پاس پہنچ گئیں اور اُن سے کہا: میں تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ سے امن لے چکی ہوں۔ انھوں نے کہا: واقعی تم لے چکی ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں! میں نے اُن سے بات کی تھی انھوں نے تمہیں امن دے دیا ہے۔چناں چہ وہ ان کے ساتھ واپس چل پڑے۔ حضرت اُمِّ حکیم نے عِکْرِمہ کو اپنے رومی