حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا۔ حضرت زید نے پوچھا: یہ بکریاںکس کی ہیں ؟ اس نے کہا: زینب بنتِ محمد (ﷺ) کی ہیں۔ حضرت زید (اسے مانوس کرنے کے لیے) کچھ دیر اس کے ساتھ چلتے رہے۔ پھر اس سے کہا: کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تم کومیں کوئی چیز دوں وہ تم حضرت زینب کو پہنچا دو اور اس کا کسی سے تذکرہ نہ کرو؟ اس نے کہا: ہاں۔ چناںچہ اسے وہ انگوٹھی دے دی جسے حضرت زینب نے پہچان لیا۔ انھوں نے چرواہے سے پو چھا: تمہیں یہ انگوٹھی کس نے دی؟ اس نے کہا: ایک آدمی نے۔ حضرت زینب نے کہا: اس آدمی کو تم نے کہاںچھوڑا؟ اس نے کہا: فلاں جگہ۔ پھر حضرت زینب خاموش ہوگئیں۔ جب رات ہوئی تو چپکے سے حضرت زید کی طرف چل پڑیں۔ جب یہ ان کے پاس پہنچیں تو ان سے حضرت زید نے کہا: تم میرے آگے اونٹ پر سوار ہوجاؤ۔ انھوں نے کہا: تم میرے آگے سوار ہوجاؤ۔ چناںچہ آگے حضرت زید سوار ہوئے اور یہ اُن کے پیچھے بیٹھیں (اس وقت تک پردہ فرض نہیں ہوا تھا) اور مدینہ پہنچ گئیں۔ حضور ﷺ اُن کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ میری بیٹیوں میں سے یہ سب سے اچھی بیٹی ہے جسے میری وجہ سے بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی۔ جب یہ حدیث حضرت علی بن حسین ؓ تک پہنچی تو وہ حضرت عروہ کے پاس آئے اوراُن سے کہا کہ وہ کون سی حدیث ہے جس کے بارے میں مجھے خبر ملی ہے کہ تم اسے بیان کرکے حضرت فاطمہ ؓ کا درجہ کم کر دیتے ہو؟ حضرت عروہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں ہے جو کچھ مشرق اور مغرب کے درمیان ہے وہ سب مجھے مل جائے اورمیں(اس کے بدلہ میں) حضرت فاطمہ کا ذرا سا بھی درجہ کم کردوں۔ بہرحال میں آج کے بعد یہ حدیث کبھی بیان نہیں کروں گا۔1حضرت دُرَّہ بنتِ ابی لہب ؓ کی ہجرت حضرت ابنِ عمر،حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عمار بن یاسر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت دُرَّہ بنتِ ابی لہب ؓ ہجرت کر کے (مدینہ) آئیں اور حضرت رافع بن مُعلّیٰ زُرَقی ؓ کے گھرمیںٹھہریں۔ قبیلہ بنو زُرَیق کی جو عورتیں ان کے پاس آکر بیٹھیں انھوں نے ان سے کہا: تم اسی ابو لہب کی بیٹی ہو جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ O مَا اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ O}2 ٹوٹ گئے ہاتھ ابی لہب کے اورٹوٹ گیا وہ آپ۔ کام نہ آیا اس کو مال اس کا اور نہ جو اُس نے کمایا۔ لہٰذاتمہاری ہجرت تمہارے کام نہ آئے گی۔ حضرت دُرَّہ نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان عورتوں کی شکایت کی اور جو انھوںنے کہا تھا وہ آپ کو بتایا۔ حضور ﷺ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا: بیٹھ جاؤ۔ پھر لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تھوڑی دیربیٹھے اور فرمایا: کیا بات ہے کہ مجھے میرے خاندان والوں کے بارے میں تکلیف پہنچائی جا رہی