حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
امام مسلم کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: کیا تم یہ کام کرلیتے ؟ارے! میں نے غزوۂ اَحزاب (غزوۂ خندق) کی ایک رات میں مسلمانوں کو حضور ﷺ کے ساتھ اس حال میں دیکھا کہ تیز ہوا چل رہی تھی اور سخت سردی پڑ رہی تھی اور آگے حدیث ذکر کی۔ حاکم اور بیہقی کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت حذیفہ نے کہا: ارے! اس کی تمنا نہ کرو۔ آگے مزید حدیث بھی ہے جیسے کہ خوف برداشت کرنے کے باب میں آئے گی۔ 1حضورﷺ کا اللہ کی طرف دعوت دینے کی وجہ سے سختیوں اور تکالیف کا برداشت کرنا حضرت اَنس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی خاطر جتنی تکلیف مجھے پہنچائی گئی اتنی کسی کو نہیں پہنچائی گئی، اور جتنا مجھے اللہ کی وجہ سے ڈرایا گیا اتنا کسی کو نہیں ڈرایا گیا، اور مجھ پر تیس دن اور تیس راتیں مسلسل ایسی گزری ہیں کہ میرے اور بلال (ؓ ) کے پاس کسی جان دار کے کھانے کے قابل صرف اتنی چیز ہوتی جو بلال کی بغل کے نیچے آجائے (یعنی بہت تھوڑی مقدار میں ہوتی تھی)۔ 2 حضرت عَقِیل بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں کہ قریش ابوطالب کے پاس آئے اور کہا: اے ابوطالب! آپ کابھتیجا (حضور ﷺ) ہمارے گھروں اور ہماری مجلس میں ہمارے پاس آتا ہے، اور ہمیں ایسی باتیں سناتا ہے جن سے ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس کو ہمارے پاس آنے سے روک دیں۔ تو ابو طالب نے مجھ سے کہا: اے عقیل! اپنے چچا زاد بھائی کو ڈھونڈ کر میرے پاس لاؤ۔چناںچہ میں آپ کو ابو طالب کی ایک کوٹھڑی میں سے بلاکرلایا۔آپ میرے ساتھ چل رہے تھے آپ سایہ میں چلنا چاہتے تھے (کیوں کہ دھوپ تیز تھی) لیکن راستہ میں سایہ نہ مل سکا،یہاں تک کہ آپ ابوطالب کے پاس پہنچ گئے۔ تو آپ سے ابوطالب نے کہا: اے میرے بھتیجے! اللہ کی قسم! جیسے کہ تم کو خود بھی معلوم ہے میں تمہاری ہر بات مانتا ہوں۔ تمہاری قوم والوں نے آکر یہ کہاکہ تم کعبہ میں اور اُن کی مجلسوں میں جاکر اُن کو ایسی باتیں سناتے ہو جن سے اُن کو تکلیف ہوتی ہے ۔ اگر تم مناسب سمجھو تو اُن کے پاس جانا چھوڑ دو۔ آپ نے نگاہ کو آسمان کی طرف اٹھاکر فرمایا کہ جس کام کو دے کر مجھے مبعوث کیا گیاہے اس کو چھوڑنے کی میں بالکل قدرت نہیں رکھتا ہوں،جیسے کہ تم میں سے کوئی سورج میں سے آگ کا شعلہ لانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اس پر ابوطالب نے کہا:میرا بھتیجا کبھی غلط بات نہیں کہتا، تم سب بھلائی کے ساتھ واپس چلے جاؤ۔ 1