حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صَبْرًا عَلَی الطَّعْنِ إِذْ وَلَّتْ حُمَاتُھُمْ وَالنَّاسُ مِنْ بَیْنِ مَھْدِيٍّ وَّمَفْتُوْنٖ جب لوگوں کی حفاظت کرنے والے پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے تھے اس وقت انھوں نے نیزوں پر صبر کیا، اور اس دن لوگ دو طرح کے تھے: ہدایت یافتہ مسلمان، اور فتنہ میں مبتلا کافر۔ یَا طَلْحَۃَ بْنَ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَدْ وَجَبَتْ لَکَ الْجِنَانُ وَزُوِّجْتَ الْمَھَا الْعِیْنٖ اے طلحہ بن عبید اللہ! تمہارے لیے جنت واجب ہوگئی، اور خوب صور ت اور آہ و چشم حوروں سے تمہارے شادی ہوگئی۔ (اور اُن کی تعریف میں) حضرت عمر ؓ نے یہ شعر کہا: حَمٰی نَبِيَّ الْھُدٰی بِالسَّیْفِ مُنْصَلِتًا لَمَّا تَوَلّٰی جَمِیْعُ النَّاسِ وَانْکَشَفُوْا جب تمام لوگوں نے پشت پھیر لی اور شکست کھا گئے اس وقت طلحہ نے ننگی تلوار سے ہدایت والے نبی کی حفاظت کی۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: اے عمر! تم نے سچ کہا۔1 اور حضرت طلحہ ؓ کے جنگ کرنے کے واقعات صفحہ ۳۶۹ پر گزر چکے ہیں ۔حضرت زُبیر بن عوّام ؓ کی بہادری حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ اللہ کی خاطر سب سے پہلے تلوار سونتنے والے حضرت زُبیر بن عوّام ؓ ہیں۔ ایک دن وہ دوپہر کو قیلولہ کر رہے تھے (یعنی آرام کر رہے تھے) کہ اچانک انھوں نے یہ آواز سنی کہ رسول اللہ ﷺ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ (یہ سنتے ہی فوراً) سُتی ہوئی ننگی تلوار لے کر باہر نکلے۔ یہ اور حضور ﷺ دونوں ایک دوسرے کو بالکل آمنے سامنے آکر ملے۔ حضور ﷺ نے پوچھا: اے زُبیر! تمہیں کیا ہو گیا؟ انھوں نے عرض کیا: میں نے سنا کہ آپ شہید کر دیے گئے ہیں۔ حضور ﷺ نے پوچھا: پھر تمہارا کیا کرنے کا ارادہ تھا؟ انھوں نے عرض کیا: میرا یہ ارادہ تھا کہ میں (آنکھ بند کر کے) مکہ والوں پر ٹوٹ پڑوں۔ حضور ﷺ نے اُن کے لیے دعائے خیر فرمائی۔ ان ہی کے بارے میں اَسَدی شاعر نے یہ اَشعار کہے ہیں : ھٰذَاکَ أَوَّلُ سَیْفٍ سُلَّ فِيْ غَضَبٍ لِلّٰہِ سَیْفُ الزُّبَیْرِ الْمُرْتَضٰی أَنَفَا حضرت زُبیر مرتضیٰ سردار کی تلوار ہی وہ تلوار ہے جو اللہ کی خاطر غصہ کرنے میں سب سے پہلے سونتی گئی ہے۔