حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کی مجلس میں شہیدوں کا تذکرہ آیا، تو حضرت عمر نے لوگوں سے پوچھا: تم شہید کسے سمجھتے ہو؟ لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! ان جنگوں میں جو مسلمان قتل ہو رہے ہیں وہ سب شہید ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: پھر تو تمہارے شہدا بہت ہو جائیں گے۔ میں تمہیں اس بارے میں بتاتا ہوں۔ بہادری اور بزدلی لوگوں کی طبعی چیزیں ہیں، اللہ جس کی طبیعت جیسی چاہیں بنا دیں۔ بہادر آدمی تو جذبہ سے لڑتا ہے اور اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانے کی پروا بھی نہیں کرتا، اور بزدل آدمی اپنی بیوی کی وجہ سے (میدانِ جنگ سے) بھاگ جاتا ہے۔ اور شہید وہ ہے جواللہ سے اَجر وثواب لینے کی نیت سے اپنی جان پیش کرے۔ اور (کامل) مہاجر وہ ہے جو اُن تمام چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے روکا ہے۔ اور (کامل) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان محفوظ رہیں۔ 2 حضرت ضِمام فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن زُبیر ؓ نے اپنی والدہ (حضرت اسماء ؓ) کے پاس پیغام بھیجا کہ تمام لوگ مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں، اور یہ (میرے مخالف) لوگ مجھے صلح کی دعوت دے رہے ہیں۔ تو انھوں نے جواب میں فرمایا کہ اگر تم اللہ کی کتاب کو اور اللہ کے نبی کریم ﷺ کی سنت کو زندہ کرنے کے لیے نکلے تھے تو پھر تمہیں اسی حق بات پر جان دے دینی چاہیے، اور اگر تم دنیا لینے کے لیے نکلے تھے تو پھر نہ تمہارے زندہ رہنے میں خیر ہے اور نہ مرجانے میں۔1جہاد کے لیے اللہ کے راستہ میں نکل کر امیر کا حکم ماننا حضرت ابو مالک اَشعری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو ہمارا امیر بنایا۔ چناںچہ ہم لوگ روانہ ہوگئے اور ایک منزل پر پڑائو ڈالا۔ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر اپنی سواری کی زِین کسی۔ میں نے اس سے کہا: تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں چارہ لانا چاہتا ہوں۔ میں نے اس سے کہا: جب تک ہم اپنے امیر سے پوچھ نہ لیں تم ایسا نہ کرو۔ چناںچہ ہم حضرت ابو موسیٰ اَشعری کے پاس آئے (غالباً حضرت ابو موسیٰ لشکر کے کسی ایک حصہ کے امیر ہوں گے) ہم نے اُن سے تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا: شاید تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانا چاہتے ہو؟ اس آدمی نے کہا: نہیں۔ حضرت ابو موسیٰ نے کہا: دیکھو تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ تو حضرت ابو موسیٰ نے کہا: اچھا! تم جائو اور ہدایت والے راستہ پر چلو۔ چناںچہ وہ آدمی چلا گیا اور کافی رات گزار کر واپس آیا تو حضرت ابو موسیٰ نے اس سے کہا: شاید تم اپنے گھر والوں کے پاس گئے تھے؟ اس نے کہا: نہیں۔ حضرت ابو موسیٰ نے کہا: دیکھ لو تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے کہا: ہاں (میں گیا تھا)۔ حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا: تو آگ میں چل کر اپنے گھر گیا اور (وہاں جتنی دیر بیٹھا رہا) تو آگ میں بیٹھا رہا اور آگ میں چل کر واپس آیا، لہٰذا اب تو نئے سرے سے عمل کر (تاکہ تیرے اس گناہ کا کفارہ ہوجائے)۔ 2