حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہیں سویا۔ جاؤ! حضرت زُبیر اور سعد کو میرے پاس بلا لاؤ۔ میں ان کو بلالایا۔ انھوں نے ان دونوں سے کچھ دیر مشورہ کیا، پھر مجھ سے کہا: جاؤ! حضرت علی کو میرے پاس بلا لاؤ۔ میں اُن کو بلا لایا۔ ان سے حضرت عبدالرحمن آدھی رات تک الگ باتیں کرتے رہے۔ پھر حضرت علی اُن کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے، انھیں (اپنے خلیفہ بننے کی)کچھ امید تھی۔ اور حضرت عبدالرحمن کوحضرت علی سے اس بارے میں کچھ خطرہ تھا۔ پھر حضرت عبدالرحمن نے مجھ سے کہا: جاؤ اور حضرت عثمان کو بلا لاؤ۔ میں انھیں بلا لایا۔ حضرت عبدالرحمن اُن سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ فجر کی اَذان پر دونوں حضرات علیحدہ ہوئے۔ جب لوگ صبح کی نماز پڑھ چکے اور یہ ذمہ دار جماعت منبر کے پاس جمع ہوگئی تو حضرت عبدالرحمن ؓ نے مدینہ میں جتنے مہاجرین اور اَنصار تھے ان سب کے پاس پیغام بھیجا اور اس سال حج میں لشکروں کے جو اُمرا حضرت عمر ؓ کے ساتھ تھے اُن کے پاس بھی پیغام بھیجا۔ جب یہ سب لوگ جمع ہوگئے تو حضرت عبدالرحمن نے خطبہ پڑھ کر فرمایا: اَما بعد! اے علی! میں نے لوگوں کی رائے میں خوب غور کیا لوگ حضرت عثمان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ہیں، تم اپنے دل میں کوئی ایسا ویسا خیال نہ آنے دینا۔ اور پھر حضرت عثمان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ میں تم سے اس بات پر بیعت ہوتا ہوںکہ تم اللہ تعالیٰ کے طریقہ پر، اور اس کے رسول (ﷺ) کی اور اُن کے بعد کے دونوں خلیفوںکی سنت پر چلوگے۔ پہلے اُن سے حضرت عبدالرحمن بیعت ہوئے اور پھر مہاجرین اور انصار اور لشکروں کے اُمرا اور تمام لوگ بیعت ہوئے۔ 1نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابۂ کرام ؓ دینِ متین کے پھیلانے کے لیے کس طرح سختیوں اور تکالیف اور بھوک اور پیاس کو برداشت کیا کرتے تھے، اور اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے اللہ کے واسطے اپنی جانوں کو قربان کرنا کس طرح اُن کے لیے آسان ہوگیا تھا حضرت نُفَیر فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضرت مقداد بن اَسود ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی وہاں سے گزرا۔ اس نے کہا: کتنی خوش قسمت ہیں یہ دونوں آنکھیں جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے۔ اللہ کی قسم!