حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قبول فرماتے ہیں۔ اللہ کی قسم! آپ کے یہ فرماتے ہی میرے آنسو ایک دم رُک گئے، اس کے بعد ایک قطرہ بھی نہ نکلا۔ میں نے کچھ دیر انتظار کیا کہ میرے والدین میری طرف سے حضور ﷺ کو جواب دیں، لیکن وہ دونوں کچھ نہ بولے۔ اللہ کی قسم! میں اپنا درجہ اتنا بڑا نہیں سمجھتی تھی کہ میرے بارے میں اللہ تعالیٰ مستقل آیات نازل فرما دیں گے جن کی تلاوت کی جاتی رہے گی اور جن کو نماز میں پڑھا جاتا رہے گا، لیکن مجھے اس کی اُمید تھی کہ حضور ﷺ کوئی ایسا خواب دیکھیں گے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے اس اِلزام سے بری کر دیں گے، کیوںکہ اللہ کو تو معلوم ہے کہ میں اس الزام سے بالکل پاک و صاف اوربری ہوں۔ میرے بارے میں قرآن نازل ہو جائے میں اپنا درجہ اس سے کم سمجھتی تھی۔ جب میں نے دیکھا کہ میرے والدین جواب دینے کے لیے نہیں بول رہے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ آپ دونوں حضور ﷺ کو جواب کیوں نہیں دیتے ہیں؟ دونوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہمیں پتہ نہیں ہے کہ ہم حضور ﷺ کو کیا جواب دیں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: مجھے کوئی ایسے گھر والے معلوم نہیں ہیں کہ جن کو اتنی پریشانی آئی ہو جتنی ان دنوں حضرت ابو بکر کے خاندان والوں کو آئی تھی۔ جب میرے والدین نے میرے بارے میں کچھ نہیں کہا تو میرے آنسو نکل آئے اور میں رو پڑی۔ پھر میں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے جو فرمایا ہے میں اس سے کبھی توبہ نہیں کروں گی (کیوںکہ یہ کام میں نے کیا ہی نہیں ہے)۔ اللہ کی قسم! کیوںکہ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ لوگ جو کہہ رہے ہیں اگر میں اس کا اقرار کر لوں حالاںکہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ میں اس سے بری ہوں تو میں ایسی بات کا اقرار کروں گی جو ہوئی نہیں ہے۔ اور لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ اگر میں اس کا انکار کروں تو آپ لوگ مجھے سچا نہیں مانیں گے۔ پھر میں نے حضرت یعقوب ؑ کا نام لینا چاہا مگر اس وقت مجھے یاد نہ آیا، تو میں نے کہا کہ اب میں بھی وہی کہتی ہوں جو حضرت یوسف ؑ کے والد نے کہا تھا یعنی: {فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ ط وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ O}1 اب صبر ہی بہتر ہے اور اللہ ہی سے مد د مانگتا ہوں اس بات پر جو تم ظاہر کرتے ہو۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم! حضور ﷺ اپنی مجلس سے ابھی اُٹھے نہیں تھے کہ اللہ کی طرف سے وحی نازل ہو نے لگی اور حسب ِسابق آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ آپ کو آپ کے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا اور چمڑے کا ایک تکیہ آپ کے سر کے نیچے رکھ دیا گیا۔ میں نے جب (وحی نازل ہونے کا) یہ منظر دیکھا تو نہ میں گھبرائی اور نہ میں نے اس کی پروا کی، کیوںکہ مجھے یقین تھا کہ میںبے قصور ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر ظلم نہیں فرمائیں گے۔ اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں عائشہ کی جان ہے! میرے والدین پر اس وقت سخت پریشانی کی حالت تھی۔ ابھی حضور ﷺ کی وہ حالت دور نہیں ہوئی تھی کہ مجھے یقین ہوگیا کہ اس ڈر سے میرے والدین کی جان نکل جائے گی کہ کہیں اللہ کی طرف سے لوگوں کی بات کی تصدیق نہ آجائے۔ پھر جب آپ کی حالت ٹھیک ہوگئی تو آپ بیٹھ گئے تو حالاں کہ سردی کا موسم تھا، لیکن آپ کے