حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حَمِیَّۃٌ سَبَقَتْ مِنْ فَضْلِ نَجْدَتِہٖ قَدْ یَحْبِسُ النَّجْدَاتِ الْمُحْبِسُ الْأَرْفَا یہ دینی حمیت ہے جو اُن کے زیادہ بہادر ہونے کی وجہ سے ظاہر ہوئی ہے، اور کبھی زیادہ سننے والا کئی قسم کی بہادریوں کو جمع کر لیا کر تا ہے۔ 1 حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ زُبیر بن عوّام ؓ نے مسلمان ہونے کے بعد یہ شیطانی آوازسنی کہ حضرت محمد ﷺ گرفتار کر لیے گئے ہیں، اس وقت حضرت زُبیرکی عمر بارہ سال تھی۔ یہ سنتے ہی انھوں نے اپنی تلوار سونت لی اور (حضور ﷺ کی تلاش میں) گلیوں میں بھاگنے لگے۔ حضور ﷺ اس وقت مکہ کے بالائی حصہ میں تھے، یہ وہاں ہاتھ میں تلوار لیے ہوئے حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ حضور ﷺ نے ان سے پوچھا: تمہیں کیا ہوا؟ انھوں نے کہا کہ میں نے یہ بات سنی کہ آپ کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے پوچھا: تم کیاکرنے لگے تھے؟ انھوں نے کہا کہ آپ کو گرفتار کرنے والوں کو اپنی اس تلوار سے مارنے لگا تھا۔ اس پر حضور ﷺ نے آپ کے لیے اور آپ کی تلوار کے لیے دعا فرمائی۔ اور اُن سے فرمایا کہ واپس لوٹ جائو۔ یہ سب سے پہلی تلوار ہے جو اللہ کے راستہ میں سونتی گئی تھی۔ 2 ابنِ اسحاق سے روایت ہے کہ جنگ ِاُحد کے دن طلحہ بن ابی طلحہ عبدری مشرکوں کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے تھا۔ اس نے مسلمانوں کو اپنے مقابلہ پر میدان میں نکلنے کی دعوت دی۔ چناںچہ لوگ ایک دفعہ تو اس کے ڈر کی وجہ سے رک گئے (اس کے مقابلہ کے لیے جانے پر کسی نے ہمت نہ کی)۔ پھر حضرت زُبیر بن عوّام ؓ اس کے مقابلہ کے لیے نکلے اور چھلانگ لگا کر اس کے اُونٹ پر اس کے ساتھ جا بیٹھے (اور اُونٹ پر ہی لڑائی شروع ہوگئی)۔ حضرت زُبیرنے طلحہ کو اوپر سے نیچے زمین پر پھینک کر اسے اپنی تلوار سے ذبح کر دیا۔ حضور ﷺ نے اُن کی تعریف فرمائی اور فرمایا کہ ہر نبی کا کوئی (جاں نثار) حواری ہوا کرتاہے، میرے حواری زُبیر ہیں۔ اور فرمایا: چوںکہ میں نے دیکھا تھا کہ لوگ اس کے مقابلہ میں جانے سے رک گئے تھے اس وجہ سے اگر یہ زُبیر اس کے مقابلہ میں نہ جاتے تو میں خود جاتا۔3 ابنِ اسحاق روایت کرتے ہیں کہ نوفل بن عبد اللہ بن مغیرہ مخزومی نے غزوۂ خندق کے دن دشمن کی صف سے باہر نکل کر مسلمانوں کو اپنے مقابلہ کے لیے نکلنے کی دعوت دی۔ چناںچہ اس کے مقابلہ کے لیے حضرت زُبیر بن عوّام ؓ نکلے اور اس پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اس کی وجہ سے اُن کی تلوار میں دندانے پڑ گئے۔ اور وہ واپس آتے ہوئے یہ شعر پڑھ رہے تھے: إِنِّي امْرُؤٌ أَحْمِيْ وَأَحْتَمِيْ عَنِ النَّبِيِّ الْمُصْطَفَی الْأُمِّيْ میں ایسا آدمی ہوں کہ (دشمن سے )اپنی بھی حفاظت کرتا ہوں اور نبی امی حضرت مصطفی ﷺ کی بھی حفاظت کرتا ہوں ۔1