حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابھی ان میں جان باقی تھی کہ کافر انھیں چھوڑ کر چلے گئے۔ انھیں مقتولین کے درمیان سے اُٹھا کر لایا گیا۔ اس کے بعد یہ زندہ رہے اور جنگِ خندق کے دن یہ شہید ہوئے۔ اور حضرت عمرو بن اُمیّہ ضَمْرِی اور قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے ایک اَنصار ی صحابی یہ دو حضرات مسلمانوں کے جانور لے کر چرانے گئے ہوئے تھے۔ انھیں مسلمانوں کے شہید ہو نے کا پتہ اس طرح چلا کہ انھوں نے دیکھا کہ جہاں مسلمانوں نے پڑائو ڈالا تھا مردار خور پرندے اُڑ رہے ہیں اور آسمان میں چکر لگا رہے ہیں۔ تو ان حضرات نے کہا: اللہ کی قسم! ان پرندوں کے یوں آسمان میں چکر لگانے میں ضرور کوئی بات ہے۔ وہ دونوں حضرات دیکھنے کے لیے آئے، آکر دیکھا تو سارے مسلمان خون میں لت پت تھے اور جن گھوڑے سواروں نے ان مسلمانوں کو قتل کیا تھا وہ وہاں کھڑے تھے۔یہ حالت دیکھ کر اَنصاری صحابی نے حضرت عمرو بن اُمیّہ سے کہا: تمہارا کیا خیال ہے؟ حضرت عمرو نے کہا: میرا خیال یہ ہے کہ ہم جا کر حضور ﷺ کو اس واقعہ کی خبر کریں۔ اَنصاری نے کہا کہ میں تو جان بچانے کے لیے اس جگہ کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا ہوں، جہاں حضرت منذر بن عمرو (جیسے آدمی) کو شہید کردیا گیا ہو۔ اور میں یہ نہیں چاہتا کہ میں زندہ رہوں اور لوگوں کو اُن کی شہادت کی خبر سناتا رہوں۔ چناںچہ انھوں نے ان کافروں سے جنگ شروع کر دی اور آخرشہید ہو گئے۔ ان کافروں نے حضرت عمرو بن اُمیّہ کو قیدی بنا لیا۔ جب انھوں نے کافروں کو بتایا کہ وہ قبیلہ مُضَر کے ہیں تو عامر بن طفیل نے اُن کو چھوڑ دیا اور ان کی پیشانی کے بال کاٹ دیے اور عامر کی ماں کے ذمہ ایک غلام آزاد کرنا تھا تو اس نے اپنی ماں کی طرف سے ان کو آزاد کر دیا۔1 حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت اُمّ سُلَیم ؓ کے بھائی حضرت حرام ؓ کو ستّر سواروں کی جماعت کے ساتھ بھیجا۔ (اس علاقہ کے) مشرکوں کے سردار عامر بن طفیل نے حضور ﷺ کو تین باتوں میں سے ایک بات اختیار کرنے کا موقع دیا تھا۔ اور اس نے کہا کہ یا تو دیہات والے آپ کے ہو جائیں اور شہروں والے میرے، یا پھر آپ کے بعد مجھے آپ کا خلیفہ بنایا جائے، یا پھر میں غَطَفان کے ہزاروں آدمی لے کر آپ سے جنگ کروں گا۔ عامر اُمّ فلاں ایک عورت کے گھر میں تھا وہ وہاں طاعون میں مبتلا ہو گیا۔ اس نے کہا: مجھے تو طاعون کا ایسا پھوڑا نکلا ہے جیسے اُونٹ کے نکلتا ہے۔ آلِ فلاں کی عورت کے گھر میں (سفر کی حالت میں ایک معمولی عورت کے گھر میں بے کسی وبے بسی کی موت کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے کہا:) میرا گھوڑا لائو۔ اس پر سوار ہوکر چلا اور گھوڑے کی پشت پر ہی اس کی موت ہوئی۔ حضرت اُمّ سلیم کے بھائی حضرت حرام اور ایک اور لنگڑ ے صحابی اور بنوں فلاں کے ایک آدمی یہ تینوں حضرات چلے۔ حضرت حرامؓ نے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ میں ان لوگوں کے پاس جاتا ہوں تم دونوں ذرا قریب رہنا۔ اگر ان لوگوں