حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا، لیکن جب میں نے اُن کے سامنے اِن صفات کو بیان کیا تومجھے پتہ چلا کہ وہ تو ماموں جان سے یہ باتیں مجھ سے پہلے ہی پوچھ چکے ہیں۔ اور یہ بھی مجھے پتہ چلا کہ وہ اپنے والد ِمحترم سے رسولِ پاک ﷺ کے مکان تشریف لے جانے اور باہر تشریف لانے اور مجلس میں تشریف فرما ہونے اورحضور ﷺ کے طرز و طریقے کو بھی معلوم کرچکے تھے، اور ان میں سے ایک بات بھی انھوں نے نہیں چھوڑی تھی۔ چناں چہ حضرت حسینؓ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد حضرت علی ؓ سے حضورﷺ کے مکان تشریف لے جانے کے حالات دریافت کیے تو انھوں نے فرمایا کہ حضورﷺ کو مکان جانے کی (اللہ کی طرف سے) اجازت تھی۔ اور آپ مکان میں تشریف رکھنے کے وقت کو تین حصوں میںتقسیم فرماتے تھے: ایک حصہ اللہ کی عبادت میں خرچ فرماتے یعنی نماز وغیرہ پڑھتے تھے۔ دوسرا حصہ گھر والوںکے اَدائے حقوق میں خرچ فرماتے(مثلاً اُن سے ہنسنا ، بولنا ، بات کرنا، اُن کے حالات معلوم کرنا)۔ تیسرا حصہ خاص اپنی ضروریات راحت و آرام کے لیے رکھتے تھے۔ پھر اس اپنے والے حصہ کو بھی دو حصوں پر اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرمادیتے، اس طرح پر کہ خصوصی حضراتِ صحابۂ کرام ؓ اس وقت میں حاضر ہوتے۔ ان خواص کے ذریعہ سے آپ کی بات عوام تک پہنچتی۔ ان لوگوں سے کسی چیز کو اٹھاکر نہ رکھتے تھے (یعنی نہ دین کے اُمور میں نہ دنیاوی منافع میں، غرض ہر قسم کا نفع بلا دریغ پہنچاتے تھے)۔ اور اُمت کے اس حصہ میں آپ کا یہ طرز تھا کہ ان آنے والوں میں اہل فضل یعنی علم و عمل والوں کو حاضری کی اجازت میں ترجیح دیتے تھے ، اس وقت کو ان کی دینی فضیلت کے لحاظ سے ان پر تقسیم فرماتے تھے۔ کوئی ایک حاجت لے کر آتا اور کوئی دو اورکوئی بہت ساری حاجتیں لے کر حاضر ہوتا، آپ اُن کی حاجتیں پوری کرنے میں لگ جاتے اور ان کو ایسے اُمور میں مشغول فرماتے جو خود اُن کی اور تمام اُمت کی اصلاح کے لیے مفید اور کار آمد ہوں۔ آپ ان آنے والوں سے عام مسلمانوں کے دینی حالات پوچھتے اور جو اُن کے مناسب بات ہوتی وہ ان کو بتادیتے اور ان کو یہ فرمادیتے کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان مفید اور ضروری باتوں کو غائبین تک بھی پہنچا دیں۔ اوریہ بھی ارشاد فرماتے تھے کہ جو لوگ (کسی عذر، پردہ ، دُوری،یا شرم یا رُعب کی وجہ سے) مجھ سے اپنی ضرورتوں کا اظہار نہیں کرسکتے تم لوگ اُن کی ضرورتیں مجھ تک پہنچا دیا کرو، اس لیے کہ جو شخص بادشاہ تک کسی ایسے شخص کی حاجت پہنچائے جو خود نہیں پہنچاسکتا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو ثابت قدم رکھیں گے۔ حضورﷺ کی مجلس میں ضروری اور مفید باتوں کا تذکرہ ہوتاتھا اور ایسے ہی اُمور کو حضور ﷺ خوشی سے سنتے تھے، اس کے علاوہ (لایعنی اور فضول باتیں) سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔ صحابہ حضور ﷺ کی خدمت میں دینی اُمور کے طالب بن کر حاضر ہوتے تھے اور کچھ نہ کچھ چکھ کر ہی واپس جاتے تھے (چکھنے سے مراد اُمورِ دینیہ کا حاصل کرنا بھی ہوسکتا ہے اور