حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پوری آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ چلنے میں صحابہ کو اپنے آگے کردیتے تھے اور خود پیچھے رہ جاتے تھے۔ جس سے ملتے سلام کرنے میں خود ابتدا فرماتے۔ حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں جان سے کہا کہ حضورﷺ کی گفتگو کی کیفیت مجھے بتائیں۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ (اُمت کے بارے میں) مسلسل غمگین اور ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔کسی گھڑی آپ کو چین نہیں آتا تھا۔ اکثر اوقات خاموش رہتے، بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے تھے۔ آپ کی تمام گفتگو شروع سے آخر تک منہ بھر کر ہوتی تھی(یہ نہیں کہ نوکِ زبان سے کٹتے ہوئے حرو ف کے ساتھ آدھی بات زبان سے کہی اور آدھی بولنے والے کے ذہن میں رہی جیسے کہ موجودہ زمانہ کے متکبرین کا دستور ہے)۔ جامع الفاظ کے ساتھ کلام فرماتے، جن کے الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوتے۔ آپ کا کلام ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا، نہ اس میں فضول باتیں ہوتیںاور نہ ضرورت سے اتنی کم ہوتیں کہ مطلب پوری طرح واضح نہ ہو۔ آپ نرم مزاج تھے۔ آپ نہ سخت مزاج تھے اور نہ کسی کی تذلیل فرماتے تھے۔ اللہ کی نعمت خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو اُس کو بہت بڑا سمجھتے تھے،نہ اس کی کسی طرح مذمت فرماتے تھے اور نہ اس کی زیادہ تعریف فرماتے (مذمت نہ فرمانا تو ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ کی نعمت ہے، زیادہ تعریف نہ فرمانا اس لیے تھا کہ اس سے حرص کا شبہ ہوتا ہے)۔ جب کوئی حق کے آڑے آجاتا تو پھر کوئی بھی آپ کے غصہ کی تاب نہ لاسکتا تھا اور آپ کا غصہ اس وقت ٹھنڈا ہوتا جب آپ اس کا بدلہ لے لیتے۔ اور ایک روایت میں یہ مضمون ہے کہ دنیا اور دنیاوی اُمور کی وجہ سے آپ کو کبھی غصہ نہ آتا تھا (چوںکہ آپ کو اُن کی پروا بھی نہ ہوتی تھی اس لیے کبھی دنیاوی نقصان پر آپ کو غصہ نہ آتا تھا )۔ البتہ اگر کسی دینی اَمر اور حق بات کے کوئی آڑے آتا تو اس وقت آپ کے غصہ کی کوئی شخص تاب نہ لاسکتا تھا اورکوئی اس کو روک بھی نہ سکتا تھا یہاںتک کہ آپ اس کا بدلہ لے لیں۔ اپنی ذات کے لیے نہ کسی پر ناراض ہوتے تھے، نہ اس کا انتقام لیتے تھے۔ جب کسی جانب اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے (کہ انگلیوں سے اشارہ تواضع کے خلاف ہے یا آپ نے انگلی سے اشارہ کو توحید کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ مخصوص فرما رکھا تھا)۔ جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو ہاتھ کو پلٹ لیتے تھے۔ اور جب بات کرتے تو (کبھی گفتگو کے ساتھ ) ہاتھوں کو بھی حرکت فرماتے اور کبھی دا ہنی ہتھیلی کو بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصہ پر مارتے۔ اور جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیرلیتے اور بے توجہی فرماتے یا در گزر فرماتے، اور جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سے آنکھیں جھکالیتے۔ آپﷺ کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی، اس وقت آپ کے دَندان مبارک اَولے کی طرح چمک دار اور سفید ظاہر ہوتے تھے۔ حضرت حسن ؓ فرماتے ہیںکہ میں نے حضرت حسین بن علی ؓ سے حضور ﷺ کی ان صفات کا ایک عرصہ تک تذکرہ نہیں