حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھر دیوار پر (واپسی کے لیے) چڑھا۔ اسی دوران میں ایک دن مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ ایک نبطیکو جو ملکِ شام سے مدینہ غلہ بیچنے آیا تھا، یہ کہتے ہوئے سنا کہ کون مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتائے گا؟ لوگ میری طرف اشارہ کرنے لگے۔ وہ میرے پاس آیا اور غسّان کے بادشاہ کا خط مجھے دیا جو ایک ریشمی کپڑے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا: اَما بعد! مجھے معلوم ہوا کہ تمہارے آقا نے تم پر ظلم کر رکھا ہے، اللہ تمہیں ذلت کی جگہ نہ رکھے اور تمہیں ضائع نہ کرے، تم ہمارے پاس آجائو ہم تمہارا ہر طرح خیال کریں گے۔ جب میں نے خط پڑھا تو میں نے کہا کہ یہ ایک اور مصیبت آگئی (کہ مجھے اِسلام سے ہٹانے کی تدبیریں ہونے لگیں)۔ میں نے اس خط کو لے جا کر ایک تنّور میں پھونک دیا۔ پچاس میں سے چالیس دن اسی حال میں گزرے کہ حضور ﷺ کا قاصد میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا: رسول اللہ ﷺ تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے الگ ہو جائو۔ میں نے کہا: اسے طلاق دے دوں یا کچھ اور کروں؟ اس نے کہا: نہیں (طلاق نہ دو) بلکہ اس سے الگ رہو اس کے قریب نہ جائو۔ حضور ﷺ نے میرے دونوں ساتھیوں کے پاس یہی پیغام بھیجا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تُو اپنے میکے چلی جا جب تک اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ نہ فرمائیں وہیں رہنا۔ حضرت ہلال بن اُمیّہ کی بیوی نے حضور ﷺ کی خدمت میں آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! ہلال بن اُمیّہ بالکل بوڑھے شخص ہیں، اُن کا کوئی خادم بھی نہیں ہے (اگر میں انہیں چھوڑکر چلی گئی تو) وہ ہلاک ہوجائیں گے۔ کیا آپ اسے ناگوار سمجھتے ہیں کہ میں ان کی خدمت کرتی رہوں؟ آپ نے فرمایا:نہیں، بس وہ تمہارے قریب نہ آئیں۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! اس کی طرف تو انھیں میلان بھی نہیں۔ جس روز سے یہ واقعہ پیش آیا ہے آج تک اُن کا وقت روتے ہی گزر رہا ہے۔ مجھ سے بھی میرے خاندان کے بعض لوگوں نے کہا کہ جیسے ہلال بن اُمیّہ نے اپنی بیوی کی خدمت کی اِجازت حضور ﷺ سے لے لی ہے تم بھی اپنی بیوی کے بارے میں اجازت لے لو۔ میں نے کہا: نہیں، میں حضور ﷺ سے اس کی اِجازت نہیں لوں گا۔ کیا پتہ میں اس کی اجازت لوں تو حضور ﷺ کیا فرما دیں۔ اور میں جوان آدمی ہوں (میں اپنے کام خود کر سکتا ہوں)۔ اس حال میں دس دن اور گزرے، ہم سے بات چیت چھٹے ہوئے پورے پچاس دن ہوگئے۔ پچاسویں دن کی صبح کی نماز پڑھ کر میں اپنے ایک گھر کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اور میرا وہ حال تھا جس کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے زندگی دو بھر ہو رہی تھی اور کشادگی کے باوجود زمین مجھ پر تنگ ہوچکی تھی کہ اتنے میں، میں نے ایک پکارنے والے کی آواز کو سنا جو سَلْع پہاڑی پر چڑھ کر اُونچی آواز سے کہہ رہا تھا: اے کعب! تمہیں خوش خبری ہو! میں ایک دم سجدہ میں گر گیا اور سمجھ گیا کہ کشادگی آگئی۔ حضور ﷺ نے فجر کی نماز پڑھ کر لوگوں میں ہماری توبہ کے قبول ہونے کا اعلان فرمایا۔