حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے مجھ سے کہا: ہمیں تو نہیں معلوم کہ تم نے اس سے پہلے گناہ کیا ہو، اور تم سے اِتنا نہیں ہوسکا کہ جیسے اور پیچھے رہ جانے والوں نے عذر پیش کیے تم بھی حضور ﷺ کے سامنے عذر پیش کر دیتے، تو حضور ﷺ کا تمہارے لیے اِستغفار فرمانا تمہارے گناہ کے لیے کافی ہوجاتا۔ اللہ کی قسم! وہ لوگ مجھے ملامت کرتے رہے یہاں تک کہ میرا اِرادہ ہوگیا کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں واپس جا کر اپنی پہلی بات کی تکذیب کر دوں۔ لیکن میں نے اُن سے پوچھا: کیا ایسا معاملہ میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ بھی پیش آیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں! اور دو آدمیوں کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔ انھوں نے بھی وہی بات کہی ہے جو تم نے کہی ہے، اور اُن سے بھی وہی کہا گیا ہے جو تم سے کہا گیا ہے۔ میں نے پوچھا: وہ دونوں کون ہیں؟ انھوں نے کہا: مُرَارہ بن ربیع عَمْرِی اور ہلال بن اُمیّہ واقفی ؓ۔ چناںچہ انھوں نے میرے سامنے ایسے دو نیک آدمیوں کا نام لیا جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، وہ دونوں میرے شریکِ حال ہیں۔ جب اُن لوگوں نے ان دونوں کا میرے سامنے نام لیا تو میں وہاں سے چلا گیا۔ حضور ﷺ نے ساتھ نہ جانے والوں میں سے ہم تینوں سے بات کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا۔ چناںچہ لوگوں نے ہم سے بولنا چھوڑ دیا اور سارے لوگ ہمارے لیے بدل گئے یہاں تک کہ مجھے زمین بدلی ہوئی نظر آنے لگی کہ یہ وہ زمین نہیں ہے جسے میں پہلے سے پہچانتا ہوں۔ ہم نے پچاس دن اسی حال میں گزارے۔ میرے دونوں ساتھی تو عاجزبن کر گھر بیٹھ گئے اور وہ روتے رہتے تھے۔ میں ان سب میں جوان اور زیادہ طاقت ور تھا اس لیے میں باہر آتا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں چلتا پھر تا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہیں کرتا تھا۔ میں حضور ﷺ کی خدمت میں آکر آپ کو سلام کرتا۔ آپ نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھے ہوئے ہوتے تھے اور میں دل میں کہتا تھا کہ میرے سلام کے جواب میں حضور ﷺ کے ہونٹ ہلے ہیں یا نہیں۔ پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگ جاتا اور نظر چُرا کر آپ کو دیکھتا رہتا (کہ آپ بھی مجھے دیکھتے ہیں یا نہیں)۔ جب میں نماز میں مشغول ہوجاتا تو آپ مجھے دیکھنے لگ جاتے، اور جب میں آپ کی طرف متوجہ ہوتا تو دوسری طرف منہ پھیر لیتے۔ جب لوگوں کو اس طرح اِعراض کر تے ہوئے بہت عرصہ گزر گیا تو (تنگ آکر ایک دن) میں چلا اور حضرت ابو قتادہ (ؓ) کے باغ کی دیوار پر چڑھ گیا۔ وہ میرے چچا زاد بھائی تھے اور مجھے ان سے سب سے زیادہ محبت تھی۔ میں نے اُن کو سلام کیا۔ اللہ کی قسم! انھوں نے میرے سلام کا جواب نہ دیا۔ میں نے کہا: اے ابو قتادہ! میں تمہیں اللہ کاواسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں؟ وہ خاموش رہے۔ میں نے اُن کو دوبارہ اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا وہ پھر خاموش رہے۔ جب میں نے اُن سے تیسری مرتبہ پوچھا تو انھوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ یہ سنتے ہی میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور وہاں سے لوٹ آیا یہاں تک کہ