حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وجمال کی اَکڑ نے اسے روک لیا۔ حضرت معاذبن جبل ؓ نے کہا: تم نے غلط بات کہی۔ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! ہم جہاں تک سمجھتے ہیں وہ بھلا آدمی ہے۔ حضور ﷺ خاموش ہوگئے۔ جب مجھے یہ خبر ملی کہ حضور ﷺ واپس تشریف لا رہے ہیں تو مجھے رنج و غم سوار ہو ا اور بڑا فکر ہوا۔ دل میں جھوٹے جھوٹے عذر آتے تھے اور میں کہتا تھا کہ کل کو کون سا عذر بیان کر کے میں حضور ﷺ کے غصہ سے جان بچا لوں۔ اور اس بارے میں میں نے اپنے گھر انے کے ہر سمجھ دار آدمی سے مشورہ لیا۔ جب مجھے یہ کہا گیا کہ حضور ﷺ بس آنے ہی والے ہیں تو اِدھر اُدھر کے سب غلط خیال چھٹ گئے اور میں نے سمجھ لیا کہ جھوٹ بول کر میں اپنی جان نہیں بچا سکتا ہوں، اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ حضور ﷺ کی خدمت میں سچی بات عرض کروں گا۔ چناںچہ آپ تشریف لے آئے۔ جب آپ سفر سے واپس تشریف لایا کرتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز ادا فرماتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھ جاتے۔ چناںچہ حسبِ معمول نماز سے فارغ ہو کر آپ جب مسجد میں بیٹھ گئے تو اس غزوہ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ کی خدمت میں آئے اور قسمیں کھا کر اپنے عذربیان کرنے لگے۔ اُن کی تعداد اَسّی سے زیادہ تھی۔ حضور ﷺ نے اُن کے ظاہرِ حال کو قبول فرما لیا اور اُن کو بیعت فرمایا اور اُن کے لیے اِستغفار کیا اور اُن کے باطن کو اللہ کے سپرد کیا۔ چناںچہ میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔جب میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے ناراضگی کے انداز میں تبسم فرمایا، پھر فرمایا: آئو۔چناںچہ میں چل کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: تم پیچھے کیوں رہ گئے؟ کیا تم نے سواریاں نہیں خرید رکھی تھیں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ اللہ کی قسم! اگر میں دنیا والوں میں سے کسی اور کے پاس اس وقت ہوتا تو میں اس کے غصہ سے معقول عذر کے ساتھ جان بچا لیتا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے زور دار بات کرنے کا سلیقہ عطا فرما رکھا ہے۔ لیکن اللہ کی قسم! مجھے معلوم ہے کہ اگر آج میں آپ سے غلط بیانی کر کے آپ کو راضی کر لوں تو اللہ تعالیٰ (آپ کو اصل حقیقت بتا کر) عنقریب مجھ سے ناراض کر دیں گے۔ اور اگر میں آپ سے سچ بول دوں گا تو اگرچہ آپ اس وقت مجھ سے ناراض ہو جائیں گے، لیکن مجھے اللہ سے اُمید ہے کہ وہ مجھے معاف کر دیں گے۔ اللہ کی قسم! مجھے کوئی عذر نہیں تھا۔ اور اللہ کی قسم! میں اس دفعہ جو آپ سے پیچھے رہ گیا اس وقت میں جتنا قوی اور مال دار تھا اس سے پہلے کبھی اتنا نہیں تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اس آدمی نے سچ کہا ہے۔ اور آپ نے فرمایا: اچھا، اُٹھ جائو تمہارا فیصلہ اب اللہ تعالیٰ ہی خود کریں گے۔ چناںچہ میں وہاں سے اُٹھا تو ( میرے قبیلہ) بنو سَلِمہ کے بہت سے لوگ ایک دم اٹھے اور میرے پیچھے ہو لیے۔ اور انھوں