حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کے وقت تھا۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے کبھی میرے پاس دو اُونٹنیاں ہونے کی نوبت نہیں آئی اور اس غزوہ میں میرے پاس دو اُونٹنیاں تھیں۔ اور حضورِ اَکرم ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جس طرف کی لڑائی کا ارادہ ہوتا تھا اس کا اظہار نہ فرماتے بلکہ ہمیشہ دوسری طرف کے حالات وغیرہ معلوم کرتے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ دوسری طرف جانا چاہتے ہیں۔ مگر اس لڑائی میں چوں کہ گرمی بھی شدید تھی اور سفر بھی دور کا تھا اور راستہ میں بیابان اور جنگل پڑتے تھے اور دشمن کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی اس لیے آپ نے صاف اعلان فرما دیا (کہ تبوک جانا ہے) تاکہ لوگ اس سفر کی پوری تیاری کرلیں، اور جہاں کا آپ کا اِرادہ تھا وہ آپ نے صاف بتا دیا۔ اور حضور ﷺ کے ساتھ مسلمانوں کی تعداد بھی بہت تھی کہ رجسٹر میں اُن کا نام لکھنا دشوار تھا (اور مجمع کی کثرت کی وجہ سے) کوئی شخص چھپنا چاہتا کہ میں نہ جائوں اور کسی کو پتہ نہ چلے تو یہ دشوار نہیں تھا، اور وہ یہ سمجھتا کہ یہ معاملہ اس وقت تک پوشیدہ رہے گا جب تک اس کے بارے میں اللہ کی طرف سے وحی نہ نازل ہو جائے۔ آپ اس غزوہ میں اس وقت تشریف لے گئے جب کہ پھل بالکل پک رہے تھے اور سایہ میں بیٹھنا ہر ایک کو اچھا لگ رہا تھا۔ حضور ﷺ اور آپ کے ساتھ مسلمان تیاری کر رہے تھے۔ میں صبح جاتا تاکہ مسلمانوں کے ساتھ میں بھی تیاری کرلوں، لیکن جب واپس آتا تو کسی قسم کی تیاری کی نوبت نہ آتی۔ اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا کہ مجھے قدرت ووسعت حاصل ہے (جب اِرادہ کروں گا تیار ہو کر نکل جائوں گا)۔ میرا معاملہ یوں ہی لمبا ہوتا رہا اور تیاری میں دیر ہوتی رہی۔ لوگ خوب زور شور سے تیاری کرتے رہے، اور آخر حضور ﷺ مسلمانوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوگئے اور میری ابھی کچھ بھی تیاری نہیں ہوئی تھی۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ایک دو دن میں تیار ہوجائوں گا اور اس لشکر سے جا ملوں گا۔ چناںچہ لشکر کی روانگی کے بعد میں صبح تیار ہونے گیا، لیکن واپس آیا تو کسی قسم کی تیاری نہیں ہوئی تھی۔ پھر میں اگلی صبح تیار ہونے گیا، لیکن واپس آیاتو کوئی تیاری نہیں ہوئی تھی۔ میرے ساتھ ایسے ہی ہوتا رہا اور مسلمان بہت تیزی سے اس غزوہ میں چلے اور آخر غزوہ میں شریک ہونے کا وقت میرے ہاتھ سے نکل گیا۔ اور میں نے اِرادہ بھی کیا کہ روانہ ہو جائوں اور لشکر سے جا ملوں اور کاش! میں ایسا کر لیتا، لیکن ایسا کرنا میرے مقدر میں نہیں تھا۔ حضور ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد جب میں باہر نکل کر لوگوں میں گھومتا پھرتا تو اس بات سے بڑا دکھ ہوتا کہ مجھے صرف وہی لوگ نظر آتے جن پر نفاق کا دھبّہ لگا ہوا ہوتا یا جن کمزوروں کو اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہوا تھا۔ تبوک پہنچنے تک حضور ﷺ نے میرا تذکرہ نہ فرمایا۔ تبوک میں پہنچنے کے بعد آپ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: کعب کا کیا ہوا؟ بنو سَلِمہ کے ایک آدمی نے کہا: یارسول اللہ! مال