حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت ابو عبیدہ بن جرّ اح ؓ اور بدر میں شریک ہونے والے اور شریک نہ ہونے والے بڑے بڑے مہاجر اور اَنصار صحابہ کو بلایا۔ وہ سب حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میں بھی اُن میں تھا۔ تو حضرت ابو بکر نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے تمام اعمال اس کی نعمتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں، لہٰذا تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے کلمہ کو جمع فرما دیا اور تمہارے اندر اتفاق پیدا کر دیا اور تمہیں اِسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور شیطان کو تم سے دور فرما دیا۔ اب شیطان کو نہ تو اس بات کی اُمید ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو گے، اور نہ اس بات کی اُمید ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی اور کو معبود بنائو گے۔ چناںچہ آج تمام عرب ایک ماں باپ کی اولاد کی طرح ہیں۔ میرا یہ خیال ہو رہا ہے کہ میں مسلمانو ں کو رومیوں سے لڑنے کے لیے شام بھیج دوں تاکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی تائید فرمائے اور اپنے کلمہ کو بلند فرمائے۔ اور اس میں مسلمانوں کو بہت بڑا حصہ (شہادت کا اور اَجر و ثواب کا) ملے گا، کیوںکہ ان میں سے جو اس لڑائی میں مارا جائے گا وہ شہید ہو کر مرے گا، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ نیک لوگوں کے لیے بہتر ہے۔اور جو زندہ رہے گا وہ دین کا دِفاع کرتے ہوئے زندگی گزارے گا، اور اسے اللہ کی طرف سے مجاہدین کا ثواب ملے گا۔ یہ تو میری رائے ہے۔ اب آپ میں سے ہر آدمی اپنی رائے بتائے۔ چناںچہ حضرت عمر نے کھڑے ہو کر فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہیں کسی خیر کے ساتھ خصوصیت سے نواز دیں۔ اللہ کی قسم! جب بھی کسی نیکی کے کام میں ہم نے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی آپ ہم سے ہمیشہ اس نیکی میں بڑھ گئے۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتے ہیں اسے عطا فرماتے ہیں، او راللہ بڑے فضل والے ہیں۔ میرے دل میں بھی یہی خیال آیا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ میں آپ سے ملاقات کرکے آپ سے اس کا ذکر کروں، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہی مقدر فرما رکھا تھا کہ آپ ہی اس کا پہلے ذکر کریں۔ آپ کی رائے بالکل ٹھیک ہے۔ ا للہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ رُشد وہدایت کے راستہ پر چلائے! آپ گھوڑے سواروں کی جماعتیں آگے پیچھے مسلسل بھیجیں اور پیدل دستوں کو بھی مسلسل بھیجیں، غرضیکہ لشکر کے پیچھے لشکر روانہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی ضرور مدد فرمائیں گے اور اِسلام اور اہلِ اسلام کو ضرور عزّت عطا فرمائیں گے۔ پھر حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے کھڑے ہو کر کہا: اے خلیفۂ رسول اللہ! یہ رومی ہیں، اور یہ بنو الاصفر ہیں۔ یہ تیز دھار والے لوہے اور مضبوط ستون کی طرح ہیں۔ میں اسے مناسب نہیں سمجھتا ہوں کہ ہم سب اُن میں بے سو چے سمجھے ایک دم گھس جائیں، بلکہ میرا خیال یہ ہے کہ ہم گھوڑے سواروں کی ایک جماعت بھیجیں جو اُن کے ملک کے اَطراف پر