حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ سورت بڑی تفصیل کے ساتھ آپ پر نازل ہو رہی تھی اور آپ کا ساتھ دینے والوں کا سارا حال بتا رہی تھی یہاں تک کہ آپ تبوک پہنچ گئے، اور وہاںسے حضرت علقمہ بن مُجزِّزمُدْلَجِی ؓ کو فلسطین اور حضرت خالد بن ولید ؓ کو دُوْمۃالْجَنْدل حضور ﷺ نے بھیجا۔ اور (حضرت خالد سے) حضور ﷺ نے فرمایا: تم جلدی جائو، تم (دُوْمۃ الْجَنْدل کے بادشاہ کو) باہر نکل کر شکار کرتا ہوا پائو گے تو اسے پکڑ لینا۔ چناںچہ ایسا ہی ہوا حضرت خالد نے اسے پایا اور اسے پکڑ لیا۔ جب (مسلمانوں کی طرف سے) کوئی تکلیف اور مشقت کی خبر آتی تو منافق مدینہ میںلوگوں کو خوب پریشان کرتے۔ چناںچہ جب انھیں یہ خبر ملتی کہ مسلمانوںکو بڑی مشقت اور مجاہدہ برداشت کرنا پڑا تو ایک دو سرے کو خوش خبری دیتے اور بہت خوش ہوتے اور کہتے: ہمیں تو یہ پہلے سے معلوم تھا (کہ اس سفر میں بڑی مشقت اٹھانی پڑے گی) اور اسی وجہ سے ہم اس سفر میں جانے سے روک بھی رہے تھے۔ اور جب انھیں مسلمانوں کی خیریت اور سلامتی کی خبر ملتی تو بڑے غمگین ہو جاتے۔ منافقوں کے جتنے دشمن مدینہ میں موجود تھے ان سب کو منافقوںکی اس دلی کیفیت کا یعنی نفاق اور مسلمانوںسے کدورت کا اچھی طرح سے پتہ چل گیا۔ اور ہر دیہاتی اور غیر دیہاتی منافق کوئی نہ کوئی خفیہ طور پر ناپاک حرکت کر رہا تھا، بالآخر یہ سب کچھ کھل کر سامنے آگیا۔ اور ہر معذور اور بیمار مسلمان کی حالت یہ تھی کہ وہ اس انتظار میں تھا کہ اللہ تعالیٰ جو آیتیں اپنی کتاب میں نازل فرما رہے ہیں ان آیتو ں میں (مدینے میں رہنے کی اجازت کی) گنجایش والی آیت بھی نازل ہوجائے۔ سورۂ براء ت تھوڑی تھوڑی اُترتی رہی (اور اس میں ایسے مضامین نازل ہوتے رہے جن کی وجہ سے) لوگ مسلمانوں کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے، اور مسلمان اس بات سے ڈرنے لگے کہ توبہ کے ذیل میں ان کے ہر چھوٹے بڑے گناہ کے بارے میں اس سورت میں ضرور کوئی نہ کوئی سزا نازل ہو جائے گی، یہاں تک کہ سورۂ براء ت پوری مکمل ہوگئی اور عمل کرنے والے ہر کارکن (مسلمان اور منافق) کے بارے میں اس سورت میں واضح کر دیا گیا کہ وہ ہدایت پر ہے یا گمراہی پر ہے ۔ 1 حضرت عبداللہ بن ابی بکر بن حَزم کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی عادت ِشریفہ یہ تھی کہ غزوہ میں جس طرف جانے کا ارادہ ہوتا (اس کا اظہار نہ فرماتے) بلکہ ایسا انداز اختیار کرتے جس سے کسی اور طرف جانے کا ارادہ معلو م ہو۔ لیکن غزوۂ تبوک میں (آپ نے یہ انداز اختیار نہ کیا بلکہ) صاف طور سے فرمایا: اے لوگو! اس دفعہ روم والوںسے لڑنے کا ارادہ ہے۔ چناںچہ آپ نے اپنا ارادہ صاف صاف ظاہر فرما دیا۔ اس وقت لوگ بڑے نادار تھے، گرمی سخت پڑ رہی تھی، اور سارے علا قہ میں قحط سالی تھی، اور پھل پک چکے تھے اور لوگ (تیار پھلوں کو کاٹنے کے لیے) اپنے باغات میں (اور شدتِ گرمی