حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رِزق اور خیر کا وعدہ کیا ہے وہ چھوڑ کر آیا ہوں۔ حضرت ابو عقیل نامی اَنصاری صحابی ؓ نے ایک صاع(ساڑھے تین سیر) کھجورلاکر دی۔ اور منافقوں نے جب مسلمانوںکے اس طرح خرچ کرنے کو دیکھاتو ایک دوسرے کو آنکھ سے اشارے کرنے لگے۔ جب کوئی زیادہ لاتا تو آنکھ سے اشارے کر کے کہتے کہ یہ ریا کارہے (دِکھاوے کے لیے زیادہ لایا ہے)، اور جب کوئی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑی کھجوریں لاتا تو کہتے کہ یہ جو لایا ہے اس کا تو یہ خود ہی زیادہ محتاج ہے۔ چناںچہ جب حضرت ابو عقیل ایک صاع کھجور لائے تو انھوں نے کہاکہ میںآج ساری رات دو صاع کھجورمزدوری کے بدلہ میں پانی کھینچتا رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! ان دو صاع کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ وہ عذر بھی بیان کر رہے تھے اور (کم خرچ کرنے پر)شرما بھی رہے تھے۔ اور ان دو صاع میں سے ایک صاع یہاں لایا ہوں اور دوسرا صاع اپنے گھر والوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔ اس پر منافقوں نے کہا کہ اسے تو اپنے صاع کھجوروںکی دوسروں سے زیادہ ضرورت ہے۔ اور منافقین اس طرح آنکھوں سے اِشارے اور زبان سے ایسی باتیں بھی کرتے جاتے تھے اور ان کے مال دار اور غریب سب اس انتظارمیں تھے کہ ان صدقات میں سے انھیں بھی کچھ مل جائے۔ جب حضور ﷺ کی روانگی کا وقت قریب آگیا تو منافق بہت زیادہ اجازت مانگنے لگے اور انھوں نے گرمی کی بھی شکایت کی، اور یہ بھی کہا کہ اگروہ اس سفر میں گئے تو انھیں آزمایش میں مبتلا ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اور اپنی جھوٹی باتوں پر اللہ کی قسم بھی کھاتے تھے۔ حضور ﷺ اُن کو اجازت دیتے رہے، آپ کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے دلوں میںکیاہے ؟ ان میں سے ایک گروہ نے مسجدِ نفاق بھی بنائی جس میںبیٹھ کر وہ ابو عامر فاسق اور کنانہ بن عبدِیَالِیْل اور علقمہ بن عُلاَثہ عامری کا انتظار کر رہے تھے۔ ابو عامر ہِرَقْل کے پاس گیا ہوا تھا۔ (ابو عامر ہِرَقْل کو حضور ﷺ کے خلاف فوج کشی پر آمادہ کرنے کے لیے گیا تھا، اور یہ مسجد مسلمانوںکے خلاف مشورے کرنے کے لیے بنائی تھی) اور ان ہی کے بارے میں سورۂ براء ت تھوڑی تھوڑی نازل ہو رہی تھی اور اس میںایک ایسی آیت نازل ہوئی جس کے بعد کسی کے لیے جہاد سے رہ جانے کی گنجایش نہیںرہی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے {اِنْفِرُوْاخِفَافًا وَّثِقَالاً}1 آیت نازل فرمائی کہ ’’تم ہلکے ہو یا بھاری ہر حال میںاللہ کے راستہ میں نکلو۔‘‘ تو مخلص اور پکے مسلمان جو کمزور اور بیمار اور غریب تھے، انھوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں آکر شکایت کی کہ اب تو اس غزوہ میں نہ جانے کی کوئی گنجایش نہیں رہی۔ اور منافقین کے بہت سے گناہ ابھی تک چھپے ہوئے تھے جو بعد میں ظاہر ہوئے۔ اور بہت سے (منافق) لوگ اس غزوہ میں نہ گئے، نہ انھیں (خدا پر) یقین تھا اور نہ کسی قسم کی بیماری تھی۔