حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
إِلَّا التُّقٰی وَعَمَلِ الْمَعَادٖ وَالصَّبْرِ فِي اللّٰہِ عَلَی الْجِھَادٖ وَکُلُّ زَادٍ عُرْضَۃُ النَّفَادٖ غَیْرَ التُّقٰی وَالْبِرِّ وَالرَّشَادٖ میں(ظاہری)توشہ لیے بغیر اللہ کی طرف دوڑ رہا ہوں، البتہ تقویٰ اور آخرت والے عمل اور جہاد میںاللہ کے لیے صبر کرنے کا توشہ ضرورساتھ ہے، اور تقویٰ اور نیکی اور ہدایت کے علاوہ ہر توشہ ضرور ختم ہو جائے گا۔1 حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیںکہ طائف سے واپس آنے کے چھ ماہ بعد میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو غزوۂ تبوک کا حکم دیا۔ یہ وہ غزوہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سَاعَۃُ الْعُسْرَۃْ (تنگی کی گھڑی) کے نام کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہ غزوہ سخت گرمی میں ہواتھا اس وقت منافقین کا زور بھی بڑھ رہا تھا اور اصحابِ صفہ کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ صُفّہ ایک چبوترے کا نام ہے جس پر فقر وفاقہ والے مسلمان جمع رہتے تھے۔ ان کے پاس حضور ﷺ کا اور مسلمانوںکا صدقہ آیا کر تا تھا۔ جب کسی غزوہ میں جانے کا موقع آتا تو مسلمان ان کے پاس آکر حسبِ توفیق ایک یا زیادہ آدمیوںکو اپنے ساتھ لے جاتے اور ان کو کھانا بھی خوب کھلاتے اور ان کو لڑائی کا سامان بھی دیتے۔ یہ حضرات بھی مسلمانوںکے ساتھ لڑائی میں شریک ہوتے اور مسلمان بھی ان حضرات پر ثواب لینے کی نیت سے خرچ کیا کرتے تھے۔ چناںچہ (غزوۂ تبوک کے اس موقع پر ) حضور ﷺ نے مسلمانوںکو ثواب لینے کی نیت سے اللہ کی راہ میںخرچ کرنے کا حکم دیا۔ چناںچہ مسلمانوں نے ثواب کی نیت سے خوب خرچ کیا، اور کچھ (منافق) لوگوں نے بھی خرچ کیالیکن ان کی نیت ثواب لینے کی نہیں تھی (بلکہ دِکھاوے او ر خود کو مسلمان ظاہر کر نے کی تھی)۔ اور بہت سے نادار مسلمانوںکے لیے سواری کا انتظام ہو گیا، لیکن پھر بھی بہت سے مسلمان (سواری کے بغیر) رہ گئے۔ اس دن سب سے زیادہ مال حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے خرچ کیا۔ چناںچہ انھوں نے دو سو اُوقیہ چاندی یعنی آٹھ ہزار درہم اللہ کے راستہ میں دیے۔ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک سو اُوقیہ چاندی یعنی چار ہزار درہم دیے۔ اور حضرت عاصم اَنصاری ؓ نے نوّے وسق (تقریباً پونے پانچ سو من) کھجوردی۔ حضرت عمربن خطاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے خیال میں حضرت عبدالرحمن (اتنازیادہ خرچ کر کے) گناہگار ہوگئے ہیں، کیوں کہ انھوں نے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑاہے۔ چناںچہ حضور ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں! جتنا میں لایا ہوں اس سے زیادہ اور اس سے عمدہ (چھوڑ کر آیا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: کتنا؟ انھوں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جس