حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی شکایت کی (کہ قرضہ ادا کرنے کے لیے کچھ دے دیں)۔ لیکن حضرت ابو ایوب نے حضرت معاویہ سے (تعاون کا) وہ رخ نہ دیکھا جسے وہ چاہتے تھے،بلکہ (بے رخی کا ) وہ انداز دیکھا جو انھیں پسند نہ تھا۔ تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (اے اَنصار!) تم میرے بعد دیکھوگے کہ دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ حضرت معاویہ نے کہا: پھر حضور ﷺ نے تم سے کیا کہا تھا؟ انھوں نے کہا: حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ صبر کرنا۔ حضرت معاویہ نے کہا: تو پھر صبر کرو۔ حضرت ابو ایوب نے کہا: اللہ کی قسم! آج کے بعد تم سے کبھی کوئی چیز نہیں مانگوں گا۔ پھر حضرت ابو ایوب بصرہ گئے اور حضرت ابنِ عباس ؓ کے ہاں ٹھہرے۔ انھوں نے حضرت ابو ایوب کو اپنا مکان خالی کر کے دے دیا اور کہا: میں تمہارے ساتھ ویسا ہی معاملہ کروں گا جیسا تم نے حضور ﷺ کے ساتھ کیا تھا۔ چناںچہ اپنے گھر والوں سے کہا، وہ سب گھر سے باہر آگئے۔ اور حضرت ابنِ عباس نے ان سے کہا کہ گھر میں جتنا سامان ہے وہ بھی سارا آپ کا ہے۔ اور انھیں چالیس ہزار اور بیس غلام بھی مزید دیے۔ 2 ’’طبرانی‘‘ کی روایت میں آخر میں اس طرح ہے کہ پھر حضرت ابوایوب ؓ بصرہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس آئے۔ انھیں حضرت علی ؓ نے بصرہ کا گورنر مقرر کر رکھا تھا ۔ انھوں نے کہا: اے ابو ایوب! میں یہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے اس مکان سے باہر آجاؤں اور یہ آپ کو دے دوں جیسے آپ نے حضور ﷺ کے لیے کیا تھا۔ چناںچہ انھوں نے اپنے گھر والوں سے کہا، وہ سب گھر سے باہر آگئے اور گھر کے اندر جتنا سامان تھا وہ سارا اُن کو دے دیا۔ جب حضرت ابو ایوب وہاں سے جانے لگے تو حضرت ابنِ عباس نے ان سے پوچھا: آپ کو کتنی ضرورت ہے؟ انھوں نے کہا: میرا مقرر کردہ وظیفہ اور آٹھ غلام جو کہ میری زمین میں کام کرسکیں۔ حضرت ابو ایوب ؓ کا وظیفہ چار ہزار تھا، حضرت ابنِ عباس نے اسے پانچ گنا کردیا، چناںچہ ان کو بیس ہزار اور چالیس غلام دیے۔ 1 حضرت حسّان بن ثابت ؓ فرماتے ہیں کہ ہم اَنصار کو حضرت عمر یا حضرت عثمان ؓ سے ایک ضروری کام تھا۔ راوی ابنِ ابی الزِّناد کو شک ہوا ہے کہ حضرت عمر کانام لیا تھا یا حضرت عثمان کا۔ ہم لوگ عبداللہ بن عباس ؓ کو اور حضور ﷺ کے چند صحابہ ؓ کو (سفارش کے لیے) ساتھ لے کر گئے۔ چناںچہ (ہماری سفارش کے لیے) حضرت ابنِ عباس نے بھی گفتگو کی اور باقی صحابہ نے بھی کی اور ان سب نے اَنصار کا اور اُن کے مناقب اور فضائل کا خوب تذکرہ کیا، لیکن والی نے (قبول کرنے سے) عذر کر دیا۔ حضرت حسان فرماتے ہیں کہ ہم جس کام کے لیے گئے وہ بہت اہم تھا، ہمیں اس کی شدید ضرورت تھی۔ وہ والی ان حضرات سے اپنی بات کو بار بار دُہراتے رہے یہاں تک کہ اور صحابہ تو انھیں معذور سمجھ کر وہاں سے (ناامید ہوکر) کھڑے ہوگئے، لیکن حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! پھر تو اَنصار کا کوئی مرتبہ اور درجہ نہ ہوا۔