حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انھوں نے حضور ﷺ کی نصرت کی اور ٹھکانا دیا اور پھر اُن کے فضائل ذکر کرنے لگ گئے اور (حضرت حسّان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) یہ بھی کہا: یہ حضور ﷺ کے شاعر ہیں جو حضور ﷺ کی طرف سے دفاع کیا کرتے تھے۔ غرضیکہ حضرت ابنِ عباس والی کے سامنے جامع اور مدلّل کلام پیش کرتے رہے اور والی کی ہر دلیل کا جواب دیتے رہے، آخرو الی نے جب کوئی چارہ نہ دیکھا تو ہمارا کام کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری ضرورت ان کی زور دار گفتگو کے ذریعہ سے پوری کردی۔ ہم وہاں سے باہر آئے۔ میں نے حضرت عبداللہ کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا میں اُن کی تعریف کر رہا تھا اور اُن کے لیے دعا کر رہا تھا۔ پھر میں مسجد میں ان صحابہ کے پاس سے گزرا جو حضرت عبداللہ کے ساتھ (والی کے پاس)گئے تھے، لیکن انھوں نے حضرت عبداللہ جتنا زور نہیں لگایا تھا۔ میں نے بلند آواز سے اس طرح کہا کہ یہ حضرات بھی سن لیں کہ ابنِ عباس کو ہمارے ساتھ آپ لوگوں سے زیادہ لگاؤ اور تعلق ہے (آج ہمارے حق میں یہ بہتر ثابت ہوئے)۔ انھوں نے کہا: بے شک۔ پھر میں نے حضرت عبداللہ سے کہا: یہ نبوت کے بقیہ اثرات ہیں اور اَحمد ﷺ کی وراثت ہے جس کے یہ تم سے زیادہ حق دار ہیں۔ پھر میںنے حضرت عبداللہ کی تعریف میں یہ اَشعار کہے: إِذَا قَالَ لَمْ یَتْرُکْ مَقَالًا لِّقَائِلِ بِمُلْتَفَظَاتٍ لاَّ تَرٰی بَیْنَھَا فَضْلًا وہ (ابنِ عباس) جب بات کرتے ہیں تو ایسی جامع اور زور دار بات کرتے ہیں جس میں تمہیں کوئی بے کار زائد بات نظر نہ آئے گی، اور وہ کسی کے لیے مزید بات کرنے کی گنجایش نہیں چھوڑ تے ہیں۔ کَفٰی وَشَفٰی مَا فِي الصُّدُوْرِ فَلَمْ یَدَعْ لِذِی إِرْبَۃٍ فِي الْقَوْلِ جِدًّا وَّلَا ھَزْلًا ان کی گفتگو تمام پہلوؤں کے لیے کافی ہوتی ہے اور سب کے دل اس سے مطمئن ہوجاتے ہیں، ضرورت مند کے لیے مزید کسی قسم کی بات کرنے کی گنجایش نہیں چھوڑ تے ہیں۔ سَمَوْتَ إِلَی الْعُلْیَا بِغَیْرِ مَشَقَّۃٍ فَنِلْتَ ذُرَاھَا لاَ دَنِیًّا وَّلاَ وَغْلاً (اے ابنِ عباس!) آپ بلند ہوکر بغیر مشقت کے عالی مرتبہ پر پہنچ گئے اور اس کی انتہائی بلندی پر پہنچ گئے۔ آپ نہ کمینے ہیں اور نہ کمزور۔ 1 طبرانی کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت حسّان ؓ نے کہا: یہ (ابنِ عباس ؓ انصار کے لیے) اس (جذبۂ شفقت) کے تم سے زیادہ حق دار ہیں۔ اور اللہ کی قسم! یہ تو نبوت کے بقیہ اثرات ہیں اور اَحمد ﷺ کی وراثت ہیں، اور ان کی خاندانی اصل اور ان کی طبیعت کی عمدگی ان تمام باتوں میں ان کی رہبری کرتی ہے۔ لوگوں نے کہا: اے حسّان! ذرا مختصر بات کرو۔