حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت اُمّ ِ عبداللہ بنتِ ابی حَثْمہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم! ہم لوگ حبشہ جانے کی تیاری کر رہے تھے اور(میرے خاوند) حضرت عامر ہماری کسی ضرورت کی وجہ سے گئے ہوئے تھے کہ اچانک سامنے سے حضرت عمر (ؓ) آئے۔ وہ میرے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ وہ ابھی تک مشرک ہی تھے اور ہمیں اُن کی طرف سے بڑی تکلیفیں اور سختیاں اٹھانی پڑتی تھیں۔ حضرت عمر نے کہا: اے اُمّ عبد اللہ! کیا تم لوگ جارہے ہو؟ حضرت اُمّ عبداللہ نے کہا: ہاں! جب تم ہمیں ستاتے ہو اور ہر وقت ہمیں دباتے ہو تو ہم جا رہے ہیں، اور اللہ کی زمین میںکہیں رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی ان مصیبتوں سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔ حضرت عمر نے کہا: اللہ تمہارے ساتھ رہے۔ حضرت اُمّ عبداللہ فرماتی ہیں: حضرت عمر پر کچھ ایسی رِقّت طاری ہوئی جو میں نے ان میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اور پھر حضرت عمر واپس چلے گئے اور میرے خیال میں یوں ہمارے وطن چھوڑ کر چلے جانے کا انھیں بڑا غم ہو رہا تھا۔ پھرحضرت عامر ہماری وہ ضرورت پوری کر کے آئے تو میں نے کہا: اے ابوعبداللہ! اگرتم ذرا پہلے آجاتے تو دیکھتے کہ ہمارے جانے کی وجہ سے حضرت عمر پر کیسی رِقّت طاری تھی اور وہ کیسے غمگین تھے۔ حضرت عامر نے کہا: کیا تمہیں ان کے اِسلام لانے کی کچھ اُمید ہوگئی ہے؟ حضرت اُمّ عبداللہ نے کہا: ہاں۔ حضرت عامر نے کہا کہ جب تک خطّاب کا گدھا مسلمان نہیں ہوگا یہ آدمی جسے تم نے دیکھا ہے، یعنی عمر مسلمان نہیں ہوگا۔ (یعنی جیسے گدھے کا اِسلام لانا ناممکن ہے ایسے ہی عمر کا اِسلام لانا ناممکن ہے) حضرت اُمّ عبداللہ فرماتی ہیں کہ حضرت عامر چوں کہ دیکھ رہے تھے کہ عمر اِسلام کے خلاف بہت سخت دل ہے اس وجہ سے انھوںنے اُن کے اِسلام سے مایوس ہوکر یہ بات کہی تھی۔ 1 اُمّ عبداللہ کا نام لیلیٰ ہے۔ حضرت خالد بن سعید بن العاص اوراُن کے بھائی حضرت عمرو ؓ دونوںان صحابہ میں سے ہیں جو ہجرت کرکے حبشہ گئے تھے۔ حضرت خالد بیان کرتے ہیں کہ جنگ ِبدر کے ایک سال بعد جب یہ مہاجرینِ حبشہ حضور ﷺ کی خدمت میں واپس آئے اورحضورﷺ کی مجلس کے قریب پہنچے تو حضور ﷺ نے ان کا استقبال فرمایا۔ غزوۂ بدر میں شریک نہ ہونے کا ان حضرات کو بڑا غم تھا۔ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا: تم کس بات کا غم کرتے ہو؟ اور ان لوگوں کی تو ایک ہی ہجرت ہوئی اورتمہاری تودوہجرتیں ہوئی ہیں: ایک دفعہ تو تم حبشہ کے بادشاہ کے پاس ہجرت کرکے گئے، اور دوبارہ تم اس کے پاس سے میرے پاس ہجرت کرکے آئے ہو۔ 2 حضرت ابو موسیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ یمن میں تھے کہ ہمیں حضور ﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے کی خبر ملی۔ چناںچہ میں اور میرے دو بھائی حضور ﷺ کی طرف ہجرت کے اِرادے سے چلے۔ میں سب میں چھوٹا تھا۔ ان میں سے ایک حضرت ابوبُردہ اور دوسرے حضرت ابو رُہم تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے یا تو یہ فرمایا کہ ہم اپنی قوم کے