حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پچاس سے کچھ اوپر آدمیوں میں تھے، یا فرمایا کہ ہم تریپن آدمیوں میں تھے، یا یہ فرمایا کہ ہم باون آدمیوں میں تھے۔ ہم ایک کشتی پر سوار ہوئے، اس کشتی نے ہمیں نجاشی کے پاس حبشہ پہنچا دیا۔ وہاں ہمیں حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ ملے۔ ہم اُن کے ساتھ وہاں ٹھہر گئے یہاں تک کہ ہم اکھٹے ہی مدینہ آئے۔ جب ہم حضور ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے تو آپ خیبر فتح فرما چکے تھے۔ ہم کشتی والوں کو بہت سے لوگ کہا کرتے تھے کہ ہم ہجرت میں تم سے آگے نکل گئے (یعنی ہم ہجرت کرکے پہلے مدینہ آئے تم مدینہ بہت دیر سے پہنچے)۔ حضرت اَسماء بنتِ عُمَیسؓ بھی ہمارے ساتھ آنے والوں میںسے تھیں۔ وہ حضور ﷺ کی زوجہ حضرت حفصہؓ کو ملنے گئیں۔ حضرت اسماء مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ گئی تھیں۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ حضرت حفصہ کے پاس آئے، حضرت اسماء وہاں ہی تھیں۔ جب حضرت عمر نے حضرت اسماء کو دیکھا تو پوچھا: یہ کون ہے؟حضرت حفصہ نے کہا: یہ اسماء بنتِ عمیس ہے۔ حضر ت عمر نے کہا: یہ وہی حبشہ والی ہے؟ یہ وہی سمندر کاسفر کرنے والی ہے؟ حضرت اسماء نے کہا: جی ہاں! وہی ہے۔ حضرت عمر نے کہا: ہم ہجرت میں تم سے آگے نکل گئے، لہٰذا ہم تم سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے حق دار ہیں۔ حضرت اسماء کو غصہ آگیا،کہنے لگیں: ایسا ہرگزنہیں ہوسکتا۔ اللہ کی قسم! آپ لوگ تو حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ لوگوں میں سے جسے بھوک لگتی اسے حضور ﷺ کھلاتے، اور جسے نہ آتا اسے آپ سکھا دیتے۔ ہم لوگ حبشہ میں ایسی سر زمین میں تھے جہاں کے لوگ دین سے دو راوردین سے بغض رکھنے والے تھے، اور ہمیں یہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی وجہ سے برداشت کرنا پڑا۔ اللہ کی قسم! میںاس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گی اورنہ کچھ پیوںگی جب تک تم نے جو کچھ کہا ہے وہ حضور ﷺ کو بتا کر پوچھ نہ لوں۔ اور اللہ کی قسم! نہ میں جھوٹ بولوں گی اور نہ میں اِدھر اُدھر کی باتیں کروں گی اور نہ میں اپنی طرف سے بات بڑھاؤں گی۔ جب حضور ﷺ تشریف لائے تو حضرت اسماء نے عرض کیا: یانبی اللہ! حضرت عمر نے ایسے اور ایسے کہا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: پھر تم نے اُن کو کیا جواب دیا؟ میں نے کہا کہ جواب میں میں نے یہ اور یہ کہا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: وہ تم سے زیادہ حق دار نہیںہیں۔ عمر اور اُن کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی دوہجرتیں ہیں۔ حضرت اسماء فرماتی ہیںکہ حضرت ابوموسیٰ اور کشتی والوںکو میں نے دیکھا کہ وہ جماعتیں بن بن کر میرے پاس آتے اور مجھ سے یہ حدیثِ ِنبوی پوچھتے۔ اور حضور ﷺ نے اُن کے بارے میں جو یہ فضیلت اِرشاد فرمائی تھی اُن کو اس سے زیادہ نہ کسی چیز سے خوشی تھی اور نہ اُن کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی چیز بڑی تھی۔ حضرت اسماء کہتی ہیں کہ میں نے حضرت ابو موسیٰ کو دیکھا کہ وہ (خوشی کی وجہ سے) بار بار مجھ سے یہ حدیث سنتے۔