حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پہاڑپر پہنچ گئے جہاں یہ دونوں حضرات تھے۔ ان میں سے ایک آدمی غار کی طرف منہ کیے ہوئے تھا۔ اس کے بارے میں حضرت ابوبکرنے کہا: یا رسول اللہ! یہ آدمی تو ہمیں دیکھ رہاہے۔ آپ نے فرمایا: ہرگز نہیں۔ فرشتے ہمیںاپنے پروںسے چھپائے ہوئے ہیں۔ چناںچہ وہ آدمی بیٹھ کرغارکی طرف منہ کرکے پیشاب کرنے لگا، تو حضور ﷺ نے فرمایا: اگر یہ ہمیں دیکھ رہا ہوتا تو ایسے نہ کرتا۔ وہ دونوں حضرات وہاں تین رات رہے۔ حضرت ابو بکر ؓ کے غلام حضرت عامربن فُہَیرہ شام کے وقت حضرت ابو بکرکی بکریاں لے آتے اور آخر رات میں اُن کے پاس سے بکریاں لے کر چلے جاتے اور چراگاہ میں جاکر چرواہوں کے ساتھ مل جاتے۔ شام کو چرواہوں کے ساتھ واپس آتے (لیکن) آہستہ آہستہ چلتے(اورپیچھے رہ جاتے) جب رات کا اندھیرا ہوجاتا تو اپنی بکریاںلے کر ان دونوں حضرات کے پاس پہنچ جاتے۔ چرواہے یہ سمجھتے کہ وہ انھی کے ساتھ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓ دن کو مکہ میں رہ کر حالات معلوم کرتے رہتے اور جب رات کا اندھیرا ہوتا تو وہ ان دونوں حضرات کو جا کر سارے حالات بتادیتے،اور پھر آخر رات میں ان حضرات کے پاس سے چل پڑتے اور صبح کو مکہ پہنچ جاتے۔ (تین راتوں کے بعد) یہ دونوں حضرات غار سے نکلے اور ساحلِ سمندر کا راستہ اختیار کیا۔ کبھی حضرت ابو بکر حضور ﷺ کے آگے چلنے لگتے، جب اُن کو پیچھے سے کسی کے آنے کا خطرہ ہوتا تو آپ کے پیچھے چلنے لگتے۔ سارے سفر میںیوںہی (کبھی آگے کبھی پیچھے) چلتے رہے۔ چوں کہ حضرت ابو بکر ؓ لوگوں میں مشہور تھے اس وجہ سے راستہ میں انھیں کوئی (پہچاننے والا) ملتا اوریہ پوچھتا کہ یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ تو آپ کہتے: یہ راستہ دکھانے والا ہے جو مجھے راستہ دکھا رہا ہے۔ ان کا مطلب یہ ہوتاکہ مجھے دین کا راستہ دکھا رہا ہے اوردوسرا یہ سمجھتا کہ انھیں سفر کاراستہ دکھارہا ہے۔جب یہ حضرات قُدَید کی آبادی پر پہنچے جو اُن کے راستہ میں پڑتی تھی تو ایک آدمی نے بنو مُدْلج کے پاس آکر بتایا کہ میں نے سمندر کی طرف جاتے ہوئے دو سواروںکو دیکھا ہے اورمیراخیال یہ ہے کہ یہ قریش کے وہی دو آدمی ہیںجنھیں تم ڈھونڈرہے ہو۔ توسراقہ بن مالک نے کہا: یہ دوسوار تواُن لوگوں میں سے ہیں جن کو ہم نے لوگوں کے کسی کام کے لیے بھیجا ہے۔ (سراقہ سمجھ تو گئے کہ یہ حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر ہیں، لیکن لوگوں سے چھپانے کے لیے یہ کہہ دیا) پھر سراقہ نے اپنی باندی کو بلا کر اس کے کان میں یہ کہا کہ وہ اُن کا گھوڑا (آبادی سے) باہر لے جائے۔ پھر وہ ان دونوں حضرات کی تلاش میں چل پڑے۔ سراقہ کہتے ہیں کہ میں ان دونوں کے قریب پہنچا اور پھر انھوں نے اپنا قصہ بیان کیا جیسے کہ آگے آئے گا۔1 حضرت ابنِ سیرین کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں چند لوگوں کا تذکرہ ہوا اور لوگوں نے ایسی باتیںکہیں جس سے یہ معلوم ہو رہا تھاکہ وہ لوگ حضرت عمر کو حضرت ابو بکر سے افضل سمجھتے ہیں۔ جب حضرت عمر کو یہ بات معلوم ہوئی تو