حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرلوں ؟ (یعنی آدھا ملک میں تمہیں دے دوںگا) حضرت عبد اللہ نے فرمایا: اگر تم مجھے محمد ﷺ کے دین کو پلک جھپکنے جتنی دیر کے لیے چھوڑنے پر اپنا سارا ملک بھی دے دو اور عربوں کا ملک بھی دے دو تو میں پھر بھی تیار نہیں ہوں۔ تو اس پر طاغیہ نے کہا: پھر تو میں تمہیں قتل کر دوں گا۔ انھوں نے کہا: تم جو چاہے کرو۔ چناںچہ اس کے حکم دینے پر ان کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ اس نے تیر اَندازوں سے کہا کہ اس طرح تیر اُن پر چلاؤ کہ ان کے ہاتھوں اور پیروں کے پاس سے تیر گذریں (جس سے یہ مرنے نہ پائیں اور خوفزدہ ہو جائیں)۔ چناںچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اب بادشاہ نے اُن پر عیسائیت کو پھر پیش کیا لیکن یہ انکار کرتے رہے۔ پھر اس کے حکم دینے پر اُن کو سولی سے اُتارا گیا۔پھر اس بادشاہ نے ایک دیگ منگوائی جس میں پانی ڈال کر اس کے نیچے آگ جلائی ( اور وہ پانی گرم ہوکر کھولنے لگا)۔ پھر اس نے دو مسلمان قیدی بلوائے اور اُن میں سے ایک مسلمان کو (زندہ ہی) اس کھولتی ہوئی دیگ میں ڈال دیا گیا۔ (یہ خوفناک منظر حضرت عبد اللہ ؓکو دکھا کر) اس بادشاہ نے ان پر پھر نصرانیت کو پیش کیا لیکن انھوں نے پھر اِنکار کیا۔ اب بادشاہ نے حکم دیا کہ ان کو (زندہ) دیگ میں ڈال دیا جائے۔ جب سپاہی ان کو (دیگ کی طرف) لے کر جانے لگے تو یہ روپڑے۔ بادشاہ کو بتایا گیا کہ اب تو وہ رو پڑے ہیں۔ وہ سمجھا کہ اب یہ (موت سے) گھبرا گئے ہیں۔ چناںچہ اس نے کہا: انھیں میرے پاس واپس لاؤ۔ چناںچہ ان کو واپس لایا گیا۔ اب بادشاہ نے پھر ان پر نصرانیت کو پیش کیا ، انھوں نے پھر اِنکار کیا۔ اس پر بادشاہ نے کہا کہ اچھا تم کیوں رو ئے تھے؟ انھوں نے فرمایا: میں اس لیے رو یا تھا کہ میںنے اپنے دل میں کہا کہ تجھے اب اس دیگ میں ڈالا جائے گا اور تو ختم ہو جائے گا۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرے جسم پر جتنے بال ہیں اتنی میرے پاس جانیں ہوں اور ہر جان کو اللہ کے دین کی وجہ سے اس دیگ میں ڈالا جائے۔ (میں تو اس وجہ سے رو رہا تھا کہ میرے پاس بس ایک ہی جان ہے) اس طاغیہ بادشاہ نے (ان کے اس جواب سے متأثّر ہوکر) کہا: کیا یہ ہوسکتا ہے تم میرے سر کا بو سہ لے لو اور میں تمہیں چھوڑ دوں؟ تو حضرت عبد اللہ نے اس سے کہا کہ میرے ساتھ باقی تمام مسلمان قیدیوں کو بھی چھوڑ دوگے؟ بادشاہ نے کہا: ہاں، باقی تمام مسلمان قیدیوں کو بھی چھوڑ دوںگا۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا: یہ اللہ کے دشمنوں میں سے ایک دشمن ہے۔ میں اس کے سر کا بوسہ لوںگا یہ مجھے اور تمام مسلمان قیدیوں کو چھوڑ دے گا، (اس سے تو سارے مسلمانوں کا فائدہ ہوجائے گا۔ میرا دل تو اس کام کو نہیں چاہ رہا ہے لیکن میں مسلمانوں کے فائدے کے لیے کرلیتا ہوں) چلو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چناںچہ بادشاہ کے قریب جاکر انھوں نے اس کے سر کا بوسہ لیا۔ بادشاہ نے سارے قیدی اُن کے حوالے کر دیے۔ یہ ان سب کو لے کر حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت عمرکو سارے حالات بتائے۔ تو حضرت عمر نے فرمایا کہ ہر