حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیکن مسلمانوں پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب وہ اس تاریخ سے بے گانہ ہوکر اس کو فراموش کربیٹھے۔ ہمارے اہل وعظ وارشاد اور اہلِ قلم و مصنّفین نے اپنی تمام تر توجہ اولیائے متأخرین کے واقعات اور اَربابِ زُہد و مشیخت کی حکایات بیان کرنے پر صَرف کردی۔ اور لوگ بھی اس پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ وعظ و ارشاد کی مجالس ، درس و تدریس کے حلقے اور اس دور کی ساری تصانیف اور کتابیں انھیں واقعات سے بھر گئیں اور سارا علمی سرمایہ صوفیائے کرام کے احوال و کرامات کی نذر ہوگیا۔ جہاںتک راقم السطور کو علم ہے صحابۂ کرام ؓ کے واقعات و حالات کا اسلامی دعوت و تربیت میں کیا مقام ہے اور اس گنج گراں مایہ کی اصلاح و تربیت کے میدان میں اہمیت، تاثیر کی افادیت اور قدروقیمت کی جانب پہلی بارمشہور داعی الی اللہ، مُصلِح کبیر حضرت مولانا محمد الیاس (المتوفّٰی۱۳۶۳ھ) کی توجہ ہوئی، جو پوری ہمت اور بلند حوصلگی کے ساتھ اس کے مطالعہ میں منہمک ہوگئی۔ میں نے اُن میں سیرتِ نبوی ﷺ اور صحابۂ ؓ کے حالات کا بے پناہ شوق پایا، وہ اپنے عقیدت مندوں اور ساتھیوں سے انھیں کی باتیں کرتے، اسی کا مذاکرہ کرتے۔ چناںچہ ہر شب مولانا محمد یوسف صاحب ؒ یہ واقعات پڑھ کر سناتے۔ وہ پوری توجہ اور عظمت کے ساتھ ہمہ تن شوق بن کر سنتے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی نشر و اشاعت کی جائے۔ ان کے بھتیجے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نَوَّرَ اللّٰہُ مَرْقَدَہُ نے ایک متوسط رسالہ صحابۂ کرام ؓ کے حالات میں تالیف کیا، جس سے حضرت مولانا محمد الیاس بہت مسرور ہوئے اور تمام کام کرنے والوں اور دعوت کے راستے میں نکلنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ و مذاکرہ ضروری قرار دیا۔ چناں چہ یہ کتاب دعوت کے کام کرنے والوں کے نصاب میں داخل ہے اور دینی حلقوں میں اس کو ایسا قبولِ عام حاصل ہے جو بہت کم کتابوں کو حاصل ہوا ہوگا۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کے وِصال کے بعد مولانا محمد یوسف صاحب اپنے عظیم المرتبت والد کے جانشین اور وارث ہوئے۔ دعوت کی ذمہ داریاں بھی اُن کے حصے میں آئیں، سیرتِ نبویﷺ اور حالاتِ صحابہ ؓ سے شغف بھی ورثہ میں ملا، اور دعوت کے سخت مشاغل کے باوجود سیرت و تاریخ اور طبقاتُ الصحابہ کی کتابوں کا مطالعہ اور اس کا انہماک جاری رکھا۔چناں چہ جن لوگوں کو میں جانتا ہوں اُن میں مولانا محمد یوسف صاحب جیسا صحابہ ؓ کے حالات پر نظر رکھنے والا، اُن سے زیادہ استحضار رکھنے والا، اُن سے اچھا استشہاد کرنے والا، اپنی تقریروں اور گفتگو میں اُن کے واقعات کو نگینے کی طرح جڑنے والا، وسیع النظر اور باریک بین عالم میں نے نہیں دیکھا۔ قریب قریب یہی سب واقعات اور سچے قصے اُن کی قوتِ کلام کا سرچشمہ ، اُن کی اثر انگیزی اور سحر آفرینی کا ذریعہ تھے ۔جماعتوں کو بڑی سے بڑی قربانی دینے ، بڑے سے بڑے ایثار کے لیے تیار کرنے، سخت سے سخت تکلیفیں جھیلنے اور بڑی سے بڑی مصیبت اٹھانے اور دعوت کے راستے میں