حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت اَرقم ؓ کے والد نابینا کا فر تھے، وہ یہ کہتے ہوئے باہر آئے کہ اے اللہ! میرے بیٹے اور اپنے چھوٹے سے غلام اَرقم کی مغفرت فرما کیوں کہ وہ کافر ہوگیا (یعنی انھوں نے اِسلام کا نیا دین اختیار کر لیا ہے)۔ حضرت عمر نے کھڑے ہوکر کہا: یا رسول اللہ! ہم اپنا دین کیوں چھپائیں جب کہ ہم حق پر ہیں اور ان کافروں کا دین کھلم کھلا ظاہر ہوجب کہ وہ نا حق پر ہیں؟ آپ نے فرمایا: اے عمر! ہم تھوڑے ہیں، ہمیں جو تکلیف اٹھانی پڑی ہے وہ تم نے دیکھ ہی لی ہے۔ حضرت عمر نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق دے کر بھیجاہے! میں جتنی مجلسوںمیں کفر کی حالت میں بیٹھا ہوں میں اُن تمام مجلسوں میں جاکر ایمان کو ظاہر کروں گا۔ چناںچہ وہ ( دارِاَ رقم سے) باہر نکلے اور بیت اللہ کا طواف کیا، پھر قریش کے پاس سے گزرے جو اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ ابوجہل بن ہشام نے (دیکھتے ہی) کہا: فلاں آدمی کہہ رہا تھا کہ تم بے دین ہوگئے ہو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ مشرکین (یہ سن کر) حضرت عمر کی طرف جھپٹے۔ حضرت عمر نے حملہ کرکے عتبہ کو نیچے گرا لیا اور اس پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئے اور اسے مارنے لگے اور اپنی انگلی اس کی دونوں آنکھوں میں ٹھونس دی۔ عتبہ چیخنے لگا، لوگ پرے ہٹ گئے۔ پھر حضرت عمر کھڑے ہوگئے۔ جب بھی کوئی سُورما آپ کے قریب آنے لگتا تو آپ قریب آنے والوں میں سے سب سے زیادہ باعزت آدمی کو پکڑ لیتے (اور اس کی خوب پٹائی کرتے) یہاں تک کہ سب لوگ (حضرت عمر سے) عاجز آگئے ۔ اور وہ جن مجلسوں میں بیٹھا کرتے تھے ان تمام مجلسوں میں جاکر انھوں نے ایمان کا اعلان کیا اور یوں کفار پرغالب آکر حضور ﷺ کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! اب آپ کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! میں جتنی مجلسوںمیں حالتِ کفر میں بیٹھا کرتا تھا میں ان تمام مجلسوں میں جاکر بے خوف وخطر اپنے ایمان کا اعلان کرکے آیا ہوں۔ پھر حضور ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کے آگے آگے حضرت عمر اور حضرت حمزہ بن عبدالمطّلب تھے، یہاں تک کہ آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور اطمینان سے ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر حضرت عمر کے ہمراہ دارِاَرقم واپس تشریف لائے۔ اس کے بعد حضرت عمر اکیلے واپس چلے گئے اور ان کے بعد حضور ﷺ بھی واپس تشریف لے گئے۔ صحیح قول یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ بعثتِ نبوی کے چھ سال کے بعد اس وقت مسلمان ہوئے تھے جب کہ صحابۂ کرام ہجرت فرما کر حبشہ جا چکے تھے۔1 حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو اسی دینِ اِسلام پر پایا، اور روزانہ حضور ﷺ صبح اور شام دونوں وقت ہمارے ہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ جب مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم ہونے لگا تو حضرت ابو بکر ؓ سر زمینِ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے اِرادے سے چل پڑے۔ جب آپ برک الغِمَاد پہنچے تو وہاں قبیلہ قارہ کے سردار