حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
میں پوچھ کر آئیں ۔ چناںچہ وہ اُمّ جمیل کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ ابو بکر تم سے محمد بن عبداللہ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ اُمّ جمیل نے کہا: میں نہ تو ابو بکر کو جانتی ہوں اور نہ محمد بن عبداللہ کو۔ ہاں! اگر تم کہو تو میں تمہارے ساتھ تمہارے بیٹے کے پاس چلی چلتی ہوں؟ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ چناںچہ حضرت اُمّ جمیل ان کے ساتھ ان کے گھر آئیں تو دیکھا کہ حضرت ابو بکر زمین پر لیٹے ہوئے ہیں (ان میں بیٹھنے کی بھی سکت نہیں ہے) اور سخت بیمار ہیں۔ حضرت اُمّ جمیل اُن کے قریب جاکر زور زور سے رونے لگیں اور انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ کو جن لوگوں نے یہ تکلیف پہنچائی ہے وہ بڑے فاسق اور کافر لوگ ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن سے آپ کا بدلہ ضرور لے گا۔ حضرت ابو بکر نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا کیا بنا؟ حضرت اُمّ جمیل نے کہا: یہ آپ کی والدہ سن رہی ہیں۔ حضرت ابو بکر نے کہا: ان سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حضرت اُمّ جمیل نے کہا کہ حضور ﷺ ٹھیک ٹھاک ہیں۔ حضرت ابوبکر نے پوچھا کہ حضور ﷺ کہاں ہیں؟ انھوں نے کہا کہ دارِاَ رقم میں (حضرت اَر قم کے گھر میں )۔ تو حضرت ابو بکر نے کہا: اللہ کی قسم! جب تک میں حضور ﷺ کی خدمت میں خود حاضر نہ ہو جاؤں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا ۔ حضرت اُمّ خیر اور حضرت اُمّ جمیل دونوں ٹھہری رہیں یہاں تک کہ (کافی رات ہوگئی اور) لوگوں کا چلنا پھر نا بند ہوگیا۔ پھر یہ دو نوں حضرت ابو بکر کو سہارا دیتے ہوئے لے کر چلیں، یہاں تک کہ حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئیں۔ حضور ﷺ حضرت ابو بکر کو دیکھ کر اُن پر جھک گئے اور اُن کا بوسہ لیا اور سارے مسلمان بھی اُن پر جھک گئے اور اُن کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اور اُن کی یہ حالت دیکھ کر حضور ﷺ پر انتہائی رِقّت طاری ہوگئی۔ حضرت ابو بکر نے کہا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! مجھے اور تو کوئی تکلیف نہیں ہے، بس اس فاسق نے میرے چہرے کو بڑی تکلیف پہنچائی ہے۔ اور یہ میری والدہ ہیں جو اپنے بیٹے کے ساتھ اچھا سلوک کرتی ہیں اور آپ بہت برکت والے ہیں، آپ میری والدہ کو اللہ کی طرف دعوت دیں اور ان کے لیے اللہ سے دعا کریں شاید اللہ تعالیٰ ان کو آپ کے ذریعہ آگ سے بچا دے۔ چناںچہ حضورﷺ نے اُن کے لیے دعا فرمائی اور اُن کو اللہ کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئیں۔ اور صحابۂ کرام ؓ حضورﷺ کے ساتھ اس گھر میں ٹھہرے رہے اور ان کی تعداد اُنتالیس تھی۔ جس دن حضرت ابوبکر کو مارا گیا اس دن حضرت حمزہ بن عبد المطّلب ؓ مسلمان ہوئے تھے۔ اور حضور ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ اور ابو جہل بن ہشام (کی ہدایت)کے لیے دعا مانگی تھی جوحضرت عمر کے حق میں قبول ہوئی۔ آپ نے بدھ کے دن دعا کی تھی اور حضرت عمر جمعرات کو مسلمان ہوئے تھے۔ ( ان کے مسلمان ہونے پر) حضور ﷺ اور گھر میں موجود صحابہ نے اس زور سے اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہا جس کی آواز مکہ کے اوپر والے حصہ میں بھی سنائی دی۔