حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں تھے۔ ان دونوںنے اپنے غلام عدّاس کو انگور دے کر حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ وہ عیسائی تھے اور نِیْنویٰ کے رہنے والے تھے۔عدّاس نے آکر حضورﷺ کے سامنے انگور رکھ دیے۔ حضور ﷺ نے (انگور کھانے کے لیے) بسم اللہ پڑھی، اس سیعدّاس کو بڑا تعجب ہوا۔ آپ نے ان سے پوچھا: تم کہاںکے رہنے والے ہو؟ انھوں نے کہا: میں نِیْنویٰ کا رہنے والا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم اس بھلے اور نیک آدمی کے شہر کے رہنے والے ہوجن کا نام حضرت یونس بن متّیٰ تھا۔ عدّاس نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ حضرت یونس بن متّیٰ کون ہیں؟ آپ کو حضرت یونس ؑ کے جتنے حالات معلوم تھے وہعدّاس کو بتائے۔ اور آپ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ کسی انسان کا درجہ اس سے کم نہیںسمجھتے تھے کہ اسے اللہ کا پیغام پہنچائیں (یعنی چھوٹے بڑے ہر ایک کو دعوت دیا کرتے تھے)۔ حضرت عدّاس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے حضرت یونس بن متیٰ ؑ کے بارے میں کچھ اور بتائیں۔ چناںچہ حضور ﷺ پر حضرت یونس بن متیٰ ؑ کے بارے میں جتنی وحی نازل ہوئی تھی وہ سب حضور ﷺ نیعدّاس کو سنادی۔ اس پر وہ حضور ﷺ کے سامنے سجدے میں گرگئے اور آپ کے قدموں کو چومنے لگ گئے جن میں سے خون بہہ رہا تھا۔ جب عتبہ اور اس کے بھائی شَیْبہ نے اپنے غلام کو یہ کرتے ہوئے دیکھا تو دونوں سکتے میں رہ گئے۔ جب حضرت عدّاس ؓ ان دونوں کے پاس واپس آئے تو ان دونوں نے ان سے کہا: تم کو کیا ہوا کہ تم نے محمد (ﷺ) کو سجدہ بھی کیااور ان کے قدموں کو بھی چوما اور ہم نے تم کو ہم میں سے کسی کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ حضرت عدّاس نے کہا: یہ ایک بھلے آدمی ہیں، اور انھوں نے مجھے چند ایسی باتیں بتائی ہیں جو مجھے اس رسول کے بارے میں معلوم تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف مبعوث فرمایا تھا، جن کو حضرت یونس بن متّیٰ کہا جاتا ہے۔ اور انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر وہ دونوں ہنس پڑے اور کہنے لگے: ارے! یہ آدمی تمہیں تمہاری نصرانیت سے نہ ہٹا دے، یہ آدمی بہت دھوکا دیتا ہے۔ پھر حضور ﷺ مکہ واپس تشریف لے آئے۔1 حضرت موسیٰ بن عقبہ کی روایت میں یہ ہے کہ طائف والے حضور ﷺ کے راستہ پر دو صفیں بنا کر (دائیں بائیں) حضور ﷺ (کو تکلیف پہنچانے) کے لیے بیٹھ گئے۔ جب آپ وہاں سے گزرے تو جو قدم بھی آپ اٹھاتے یا رکھتے وہ اس پر پتھر مارتے، یہاں تک کہ انھوں نے آپ کو لہولہان کر دیا۔ جب آپ نے اُن سے چھٹکارا پایا تو آپ کے دونوں قدموں سے خون بہہ رہا تھا۔ اور ابنِ اسحاق کی روایت میں یہ ہے کہ حضور ﷺ ثقیف کی بھلائی سے نااُمید ہو کر جب ان کے پاس سے کھڑے ہوگئے تو ان سے آپ نے فرمایا: تم نے جو کچھ کرنا تھا کرلیا (کہ میری دعوت کو قبول نہیں کیا)، اتنا تو کرو کہ تم میری بات چھپا کر رکھو، کیوں کہ آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی قوم کو طائف والوں نے آپ کے ساتھ جو کچھ کیا ہے