حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
تو ایک آدمی نے ابو جہل سے کہا: اے ابو الحَکَم! یہ محمد ( ؑ مسجد میں) ہیں۔ اس نے کہا: کیا تم وہ (منظر) نہیں دیکھ رہے ہو جومیں دیکھ رہاہو ں؟ اللہ کی قسم! آسمان کاکنارہ مجھ پر بند ہوچکا ہے۔ جب حضور ﷺ سورت کے آخر پر پہنچے توآپ نے سجدہ فرمایا۔3 حضرت برّہ بنتِ ابی تجراۃ فرماتی ہیں کہ ایک دن ابو جہل اور اس کے ساتھ چند کافروں نے رسول اللہ ﷺ کا راستہ روکا اور آپ کو بہت تکلیف پہنچائی، تو حضرت طُلَیب بن عمیر ؓ ابوجہل کی طرف بڑھے اور اسے مارا جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا۔ لوگوں نے حضرت طُلَیب کوپکڑ لیا، ابو لہب طُلَیب کی مدد کے لیے کھڑا ہوا۔ (حضرت طُلَیب کی والدہ) حضرت اَرویٰ ؓ کو جب اس واقعہ کی خبر لگی تو انھوں نے کہا کہ طُلَیب کی زندگی کا بہترین دن وہ ہے جس دن اس نے اپنے ماموں زاد بھائی (حضور ﷺ) کی مدد کی۔ لوگوں نے ابو لہب سے کہا: (تمہاری بہن) اَرویٰ بے دین ہوگئی ہے۔ ابو لہب حضرت اَرویٰ کے پاس گیا اور ان سے ناراض ہونے لگا تو انھوں نے کہا: تم بھی اپنے بھتیجے (محمد ؑ) کی حمایت میں کھڑے ہوجاؤ، کیوں کہ اگر وہ غالب آگئے تو تمہیں اختیار ہوگا، ورنہ تمہیں اپنے بھتیجے کے بارے میں معذور سمجھائے گا۔ ابو لہب نے کہا: کیا ہم تمام عربوں (سے لڑنے) کی طاقت رکھتے ہیں؟ اور وہ تو ایک نیا دین لے کر آیا ہے۔1 حضرت قتادہ مرسلاً بیان کرتے ہیں کہ عُتَیْبہ بن ابی لہب کی شادی حضور ﷺ کی صاحب زادی حضرت اُمّ کلثوم ؓ سے ہوئی اورحضرت رُقیّہ ؓ عُتَیْبہ کے بھائی عتبہ بن ابی لہب کے نکاح میں تھیں۔ ابھی ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ حضور ﷺ کی نبوت کا ظہور ہوا۔ جب سورت {تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ}نازل ہوئی تو ابولہب نے اپنے دونوں بیٹوں عُتَیْبہ اور عتبہ سے کہا: میرا تم دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر تم محمد ( ؑ) کی بیٹیوں کو طلاق نہ دو۔ اور عُتَیْبہ اور عتبہ دونوں کی ماں بنتِ حرب بن اُمیّہ نے بھی جسے قرآن میں {حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ} کہا گیا ہے، کہا: اے میرے بیٹو! ان دونوں کو طلاق دے دو، کیوں کہ یہ دونوں بے دین ہوگئی ہیں۔ چناںچہ ان دونوں نے طلاق دے دی۔ جب عُتَیْبہ نے حضرت اُمّ کلثوم ؓ کو طلاق دے دی تو وہ حضور ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے تمہارے دین کا اِنکار کیا ہے اور تمہاری بیٹی کو طلاق دے دی ہے تاکہ تم کبھی میرے پاس نہ آؤ اور نہ میں تمہارے پاس آؤں۔ پھراس نے آپ پر حملہ کرکے آپ کی قمیض کو پھاڑ دیا۔ وہ ملکِ شام کی طرف تجارت کے لیے جانے والا تھا۔ آپ نے فرمایا: میں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھ پر اپنا کوئی شیر مسلّط کردے۔ چناںچہ وہ قریش کے تجارتی قافلہ کے ساتھ گیا۔ جب یہ لوگ زَرْقاء مقام پر پہنچے تو رات کو وہاں ٹھہر گئے۔ ایک شیر نے اس رات اس قافلہ کا چکر لگایا۔ عُتَیْبہ کہنے لگا: ہائے میری ماں کی ہلاکت! یہ شیر تو مجھے ضرور کھاجائے گا جیسے کہ محمد (ﷺ) نے کہا تھا۔ مجھے ابنِ ابی کبشہ (یہ نام کافروں نے حضور ﷺ کا رکھا ہوا تھا) نے مار ڈالا جو کہ مکہ میں ہے اور میں