حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے؟ لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ۔ حضرت علی نے کہا کہ جو بھی میرے مقابلے میں آیا میں تو اس پر غالب ہوا۔ سب سے بہادر تو حضرت ابوبکر ؓ ہیں۔ ہم لوگوں نے ( غزوئہ بدر کے موقع پر ) حضور ﷺ کے لیے چھپّر بنایا تھا، پھر ہم نے کہا کہ کون حضور ﷺ کے ساتھ رہے گا تا کہ کوئی مشرک حضور ﷺ (پر حملہ )کا ارادہ نہ کر سکے؟ اللہ کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی حضور ﷺ کے قریب نہ جاسکا، بس ایک ابوبکرنے اس کی ہمت کی اور وہ ننگی تلوار لیے ہوئے حضور ﷺ کے سرہانے کھڑے رہے۔ جو کافر بھی حضور ﷺ کی طرف آنے کا ارادہ کرتا یہ اس پر جھپٹتے۔ تو یہ ہیں لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر۔ میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ قریش نے حضور ﷺ کو چاروں طرف سے پکڑرکھاتھا، کوئی آپ پر ناراض ہورہاتھا، کوئی آپ کو جھنجھوڑ رہا تھا اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ تم نے تمام خداؤں کا ایک خدا بنادیا۔ اللہ کی قسم! اس دن بھی حضرت ابوبکر کے علاوہ ہم میں سے اور کوئی حضور ﷺ کے قریب نہ جا سکا۔ یہ آگے بڑھے کسی کو مارتے تھے، کسی سے لڑتے تھے، کسی کو جھنجھو ڑتے تھے اور کہتے جاتے تھے: تمہارا ناس ہو! کیا مارے ڈالتے ہو ایک مرد کو اس بات پر کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ اتنا کہنے کے بعد حضرت علی ؓ نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی وہ اوپر اٹھائی اور رونے لگے (اور اتنا روئے) کہ اُن کی ڈاڑھی تر ہوگئی۔ پھرکہا: میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ آلِ فرعون کا مؤمن بہتر ہے (جن کا قرآن میں تذکرہ ہے )یا ابوبکر؟ تمام لوگ خاموش رہے۔ حضرت علی نے کہا: اللہ کی قسم! ساری زمین آلِ فرعون کے مؤمنوں سے بھر جائے تو اُن (کی زندگی بھر کے اعمال ) سے حضرت ابوبکرکی ایک گھڑی زیادہ قیمتی ہے۔ آلِ فرعون کا وہ مؤمن تو اپنا ایمان چھپا رہا تھا اور یہ اپنے ایمان کا اعلان کر رہے تھے۔1 حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ مسجدِ حرام میں تشریف فرماتھے اور ابوجہل بن ہشام، شَیْبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ،عقبہ بن ابی مُعَیط ،اُمیّہ بن خَلَف اور دو اور آدمی، کل سات کافر حطیم میں بیٹھے ہوئے تھے اور حضور ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، اور نماز میں لمبے لمبے سجدے کر رہے تھے۔ ابو جہل نے کہا کہ تم میں سے کون ایسا ہے جو فلاں جگہ جائے جہاں فلاںقبیلہ نے جانور ذبح کر رکھا ہے اور اس کی اوجھڑی ہمارے پاس لے آئے، پھر ہم وہ اوجھڑی محمد (ﷺ) کے اوپر ڈال دیں گے۔ ان میں سے سب سے زیادہ بد بخت عقبہ بن ابی مُعَیط گیا اور اس نے وہ اوجھڑی لاکر حضور ﷺ کے کندھوں پر ڈال دی جب کہ حضور ﷺ سجدے میں تھے۔ میں وہاں کھڑا تھا مجھ میں بولنے کی بھی ہمت نہیں تھی، میں تو اپنی حفاظت نہیں کرسکتا تھا۔ میں وہاں سے جانے لگا کہ اتنے میں آپ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ ؓ نے یہ خبر سنی، وہ دوڑی ہوئی آئیں اور آپ کے کندھوں سے اوجھڑی کو انھوں نے اتارا۔ پھر قریش کی طرف متوجہ ہوکر اُن