حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابوجہل نے کہا: آپ تو نادان نہیں ہیں (لہٰذا ایسی سخت بات نہ کہیں، برداشت سے کام لیں)۔آپ نے اس سے فرمایا: تو بھی ان میں سے ہے (جو آخر قتل ہوں گے)۔ 1 حضرت عروہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے پوچھا کہ آپ نے قریش کو اپنی دشمنی ظاہر کرتے ہوئے حضور ﷺ کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتے ہوئے جو دیکھا وہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: ایک دفعہ قریش کے سردار حطیم میں جمع تھے، میں بھی وہاں موجود تھا۔ وہ آپس میں کہنے لگے کہ اس آدمی کی طرف سے ہمیں جتنا برداشت کرنا پڑا ہے ہمیں اتنا کبھی برداشت نہیں کرنا پڑا۔ یہ ہمیں بے وقوف کہتا ہے اور ہمارے آباء واَجداد کوبرا بھلا کہتا ہے اور ہمارے دین میں عیب نکالتا ہے اور ہماری جماعت کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے اور ہمارے معبودوں کو گالیاں دیتا ہے۔ ہم نے اس کی طرف سے بہت برداشت کرلیا ہے۔ وہ لوگ اس طرح کی باتیں کر ہی رہے تھے کہ سامنے سے حضور ﷺ چلتے ہوئے تشریف لائے۔ آپ نے حجرِاَسودکااستلام کیا اور بیتُ اللہ کا طواف کرتے ہوئے اُن کے پاس سے گزرے۔ انھوں نے آپ کی بعض باتیں نقل کرکے آپ کو طعنہ دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے اس کا اثر آپ کے چہرۂ مبارک پر محسوس کیا۔ آپ ان کے سامنے سے آگے چلے گئے۔ جب آپ اُن کے پاس سے دوبارہ گزرنے لگے تو انھوں نے ویسی ہی باتیں کہہ کر آپ کوپھر طعنہ دیا جس کا اثر میں نے آپ کے چہرۂ مبارک پر محسوس کیا۔ جب آپ ان کے پاس سے تیسری مرتبہ گزرنے لگے تو انھوں نے پھر ویسی ہی باتیں کہہ کر آپ کو طعنہ دیا۔ آپ نے کہا: اے جماعتِ قریش! کیا تم سن رہے ہو؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! میں تو تم لوگوں کو ذبح کرنے کے لیے ہی آیا ہوں ( یعنی جو ایمان نہ لائے گا وہ آخر قتل ہوگا)۔ آپ کی اس بات کی اُن پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ سب لوگ ایک دم سہم گئے، یہاں تک کہ اس سے پہلے جو آپ پر سختی کرنے کے بارے میں سب سے زیادہ زور لگا رہا تھا وہ بھی آپ سے عاجزی اور خوشامد سے بات کر کے آپ کو ٹھنڈا کرنے لگ گیااور یوں کہنے لگ گیا: اے ابو القاسم! آپ بھلائی کے ساتھ تشریف لے جائیں، اللہ کی قسم! آپ تو نادان آدمی نہیں ہیں ( لہٰذا ایسی سخت بات نہ کہیں، برداشت سے کام لیں )۔آپ واپس تشریف لے گئے۔ اگلے دن وہ لوگ پھر حطیم میں جمع ہوئے، میں بھی اُن کے ساتھ تھا۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان کی طرف سے جو تکلیفیں پیش آرہی ہیں ان کا تم نے اس سے تذکرہ کیا اور تم جو اُن کے ساتھ معاملہ بَرَت رہے ہو اس کا تم نے اُن سے ذکرکیا،(اس کے جواب میں )جب انھوں نے تم کو ایسی بات صاف صاف کہہ دی جو تمہیں بری لگی تو تم نے ان کو چھوڑ دیا (ان کے ساتھ کچھ نہیں کیا، کچھ کرنا چاہیے تھا)۔ وہ آپس میں یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں حضور ﷺ سامنے