حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہمیں تو تمنا ہی رہی کہ جو کچھ آپ نے دیکھا ہم بھی وہ دیکھ لیتے، اور جن مجلسوں میں آپ حاضر ہوئے ہم بھی اُن میں حاضر ہوتے۔ حضرت نُفَیر کہتے ہیں کہ اس آدمی کی بات سن کر حضرت مقداد غضبناک ہوگئے۔ مجھے اس پر تعجب ہوا کہ ا س نے تو ایک اچھی بات کہی تھی (پھر حضرت مقداد کیوں ناراض ہوگئے؟) تو حضرت مقداد نے اس کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ جس مجلس میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں شریک نہیں ہونے دیا تم اس مجلس میں شریک ہونے کی تمنا کیوں کر رہے ہو۔ کیا پتہ اگر تم اس مجلس میں شریک ہوتے تو تمہارا کیا حال ہوتا؟ اللہ کی قسم! بہت سے لوگوںنے حضور ﷺ کو دیکھا، لیکن اُن کو اللہ تعالیٰ نے منہ کے بل دوزخ میں ڈال دیا کیوں کہ انھوں نے حضور ﷺ کی دعوت کو قبول نہیں کیا اور آپ کو سچا نہ مانا۔ کیا تم اس پر اللہ کا شکر نہیں کرتے ہو کہ اس نے جب تم کو پیدا کیا تو تم اپنے ربّ کو پہچانتے تھے، اور حضور ﷺ جو کچھ لے کر آئے ہیں تم اسے سچا مانتے تھے، اور (کفر و ایمان کی )آزمایش دوسروں پر آئی اور تم اس آزمایش سے بچ گئے۔ اللہ کی قسم! حضور ﷺ کو ایسے زمانہ میں بھیجا گیا جس میں کفر اور گمراہی اتنے زوروں پر تھی کہ کسی نبی کے زمانے میں اتنے زور پر نہ تھی۔ ایک طویل عرصہ سے نبیوں کی آمد کاسلسلہ رکا ہوا تھا اور جاہلیت کاایسادور دورہ تھا کہ بتوں کی عبادت کوسب سے بہتر دین سمجھا جاتا تھا۔ آپ ایسافرقان (فیصلہ کی کتاب یعنی قرآن) لے کر آئے کہ جس نے حق اور باطل کو الگ الگ کردیا اور (مسلمان ) والد اور اس کے (کافر) بیٹے کے درمیان جدائی کردی۔ چناںچہ (مسلمان ) آدمی یہ دیکھتا کہ اس کا والد یا بیٹا یا بھائی کافر ہے (اور خود وہ مسلمان ہے) اور اس کے دل کے قفل کو کھول کر اللہ نے ایمان سے بھر دیا ہے اور اس کا بھی اسے یقین ہے کہ اس کا یہ خاص تعلق والا دوزخ میں جائے گا اور اس بات کا بھی یقین ہے کہ جو دوزخ میں گیا وہ برباد ہوگیا۔ اس لیے (اس خیال سے) اسے نہ چین آتا تھا، نہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہوتی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی اس دعا میں بیان کیا ہے: {رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ}1 اے رب! دے ہم کو ہماری عورتوں کی طرف سے اور اولادکی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک ۔2 حضرت محمد بن کعب قرظی کہتے ہیں کہ کوفہ والوں میں سے ایک آدمی نے حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے کہا: اے ابو عبد اللہ! آپ حضرات نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے اور اُن کی صحبت میں رہے ہیں؟ حضرت حذیفہ نے کہا: ہاں اے میرے بھتیجے! اس آدمی نے کہا:آپ حضرات کیا کیا کرتے تھے؟ حضرت حذیفہ نے کہا: ہم پوری طرح سے محنت کرتے تھے۔ اس آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم حضور ﷺ کو پالیتے تو ہم آپ کو زمین پر نہ چلنے دیتے بلکہ کندھوں پر اٹھائے رکھتے۔ حضرت حذیفہ نے کہا: اے میرے بھتیجے! میں نے غزوۂ خندق کے موقع پر حضور ﷺ کے ساتھ اپنا ایسا سخت حال دیکھا۔ آگے انھوں نے اس موقع پر خوف کی زیادتی اور بھوک اور سردی کی سختی برداشت کرنے والی حدیث ذکر کی۔