حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
حضور ﷺ سے ابوطالب نے کہا: اے میرے بھتیجے! آپ کی قوم میرے پاس آئی ہے اور اس نے ایسی ایسی باتیں کہیں ہیں۔ تم مجھ پر بھی ترس کھاؤ اور اپنی جان پر بھی، اور اتنا بوجھ مجھ پر نہ ڈالو کہ جس کو نہ میں اٹھاسکوں اور نہ تم۔ لہٰذا تم اپنی قوم کو وہ باتیں کہنی چھوڑ دو جو اُن کو ناگوار لگتی ہیں۔ اس سے حضور ﷺ یہ سمجھے کہ آپ کے بارے میں آپ کے چچا کی رائے بدل گئی ہے اور وہ اب آپ کی مدد چھوڑ کر آپ کو قوم کے حوالے کرنے والے ہیں اور اب اُن میں آپ کاساتھ دینے کی ہمت نہیں رہی ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: اے میرے چچا! اگر سورج میرے دائیں ہاتھ میںاور چاند میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیا جائے تو بھی میں اس کام کو چھوڑنے والا نہیں ہوں، (میں اس کام میں لگا رہوں گا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کام کوغالب کردیں یا اس کام کی کوشش میں میری جان چلی جائے۔ اتنا کہہ کر حضورﷺ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور آپ رو دیے اور آپ وہاں سے پشت پھیر کر چل دیے۔ جب ابو طالب نے دیکھا کہ حضور ﷺ اپنے کام پر اتنے پختہ ہیں (کہ اس کے لیے جان تک قربان کرنے اور چاند، سورج تک اٹھالینے کوتیار ہیں) تو انھوں نے حضور ﷺ کو پکارا: اے میرے بھتیجے! آپ اُن کی طرف متوجہ ہوئے۔ ابوطالب نے کہا:آپ اپنا کام کرتے رہیں اور جیسے دل چاہتا ہے کرتے رہیں، اللہ کی قسم! میں کسی وجہ سے بھی تمہارا کبھی ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ 1 حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ فرماتے ہیں کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا تو قریش کا ایک کمینہ آدمی حضور ﷺ کے سامنے آیا اور اس نے آپ پر مٹی ڈالی۔ آپ اپنے گھر واپس چلے گئے۔ آپ کی ایک بیٹی آکر آپ کے چہرے سے مٹی صاف کرنے لگی اور رونے لگی۔ آپ نے فرمایا: اے میری بیٹی! مت رو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے والدکی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔ اورآپ فرمارہے تھے کہ ابوطالب کے انتقال تک قریش میرے ساتھ اتنی ناگواری کا معاملہ نہیں کر رہے تھے، اب یہ شروع ہوگئے ہیں۔ 2 حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب ابوطالب کا انتقال ہوگیاتو قریش کے لوگ حضورﷺ کے ساتھ تُرش رُوئی اور سختی کے ساتھ پیش آنے لگے۔ آپ نے فرمایا: اے میرے چچا! آپ کی کمی بہت جلد محسوس ہونے لگی۔3 حضرت حارث بن حارث ؓ فرماتے ہیںکہ میںنے اپنے والدسے پوچھا: یہ مجمع کیسا ہے؟ میرے والد نے کہا: یہ لوگ اپنے ایک بے دین آدمی پر جمع ہیں۔ چناںچہ ہم اپنی سواری سے اُترے تودیکھا کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو ا للہ کو ایک مان لینے اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے تھے، اور لوگ آپ کی دعوت کا اِنکار کر رہے تھے اور آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچارہے تھے،یہاں تک کہ آدھا دن گزر گیا اور لوگ آپ کے پاس سے چلے گئے۔ تو ایک عورت پانی کا برتن اور رومال لیے ہوئے آئی جس کا سینہ کھلا ہوا تھا۔ آپ نے اس عورت سے برتن لے کر پانی پیا اور وضو کیا پھر اس عورت کی