حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرمالیا ) 3 حضرت ابو سفر ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر ؓ شام کی طرف کوئی لشکر روانہ فرماتے تو اُن کو اس بات پر بیعت فرماتے کہ (کافروں سے) خوب نیزوں سے جنگ کریں گے اور اگر طاعون کی بیماری آگئی تو بھی جمے رہیں گے۔1 حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ پہنچا، حضرت ابو بکر ؓ کا انتقال ہو چکا تھا اور اُن کی جگہ حضرت عمر ؓ خلیفہ بن چکے تھے۔ میں نے حضرت عمر سے عرض کیا: آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں میں آپ کے ہاتھ پر اسی چیز پربیعت ہوتا ہوں جس پر میں آپ سے پہلے آپ کے ساتھی (حضرت ابو بکر ؓ) سے بیعت ہوا تھا کہ جہاں تک میرا بس چلے گا میں بات سنوں گا اور مانوں گا۔2 حضرت عمیر بن عطیّہ لیثیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: اے امیر المؤمنین! آپ اپنا ہاتھ بلند فرمائیں، اللہ اسے بلند ہی رکھے! میں آپ سے اللہ اور اس کے رسول کے طریقہ کے مطابق بیعت ہوتا ہوں۔ آپ نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ بلند کیا اور فرمایا: اس بیعت کا مطلب یہ ہے کہ اس بیعت سے تمہارے کچھ حقوق ہم پر آگئے اور ہمارے کچھ حقوق تم پر آگئے ( اور وہ یہ ہیں کہ تم ہماری مانو گے اور ہم تمھیں صحیح صحیح بتائیں گے)۔اور حضرت عبداللہ بن عکیمؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنے اس ہاتھ سے حضرت عمر سے اس بات پر بیعت ہوا کہ بات سنوں گا اور مانوں گا ۔3 حضرت سُلَیم ابو عامر ؓ فرماتے ہیں کہ حمراء کا وفد حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے حضرت عثمان سے اس پر بیعت کرنی چاہی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے، نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، رمضان کے روزے رکھیں گے اور مجوسیوں کی عید چھوڑ دیں گے۔ جب انھوں نے ان تمام باتوں کی ہاں کرلی تب ان کو بیعت کیا۔4 حضرت مِسْوَر بن مخرمہ ؓ فرماتے ہیں کہ جس جماعت کو حضرت عمر ؓ نے (خلافت کے فیصلہ کے لیے) ذمہ دار بنایا تھا وہ جمع ہوکر مشورہ کرنے لگے توان سے حضرت عبدالرحمن ؓ نے کہا کہ یہ میرا فیصلہ ہے کہ میں نے تو خلیفہ بننا نہیں ہے، خلیفہ تو آپ لوگوں میں سے کوئی ہوگا۔ اب اگر آپ کہو تو آپ لوگوں میں سے کسی ایک کو منتخب کردیتا ہوں۔ چناںچہ ان سب نے حضرت عبدالرحمن کو اس کا اختیار دے دیا۔ جب ان حضرات نے اپنا معاملہ حضرت عبدالرحمن کے سپرد کر دیا تو سب لوگوں کی توجہ حضرت عبدالرحمن کی طرف ہوگئی۔ اس جماعت کے باقی حضرات کے پاس نہ جاتا ہوا کوئی نظر آیا اور نہ پیچھے چلتا ہوا۔ سب لوگ ان دنوں میں حضرت عبدالرحمن کو ہی جاکر اپنے مشورے دیتے یہاں تک کہ جب وہ رات آئی کہ جس کی صبح کو ہم لوگ حضرت عثمان ؓ سے بیعت ہوئے اور اس رات کا کچھ حصہ گزر گیا، تو حضرت عبدالرحمن نے آکر میرا دروازہ اس زور سے کھٹکھٹایا کہ میں جاگ اٹھا۔ انھوں نے کہا: تم تو مزے سے سورہے ہو اورمیں آج رات ذرا بھی