حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شور مچاتے اور پھر اسے اپنے مجمع میں لے جاتے اور ہم اس پر جزیہ مقرر کردیتے اور اس سے ہمیں اتنا زیادہ دکھ ہوتا کہ جیسے ہم میں سے کوئی آدمی نکل کر ادھر چلاگیا ہو۔ چناںچہ یوں ہی سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ابو مریم عبداللہ بن عبدالرحمن کو بھی درمیان میں لایا گیا۔ قاسم راوی کہتے ہیں: میں نے اُن کی زیارت کی ہے، اس وقت وہ بنو زُبید کے سردار تھے۔ چناںچہ ہم نے اُن کو کھڑا کرکے اُن پر اِسلام اور نصرانیت کو پیش کیا اور اُن کے والدین اور بھائی نصاریٰ کے اس مجمع میں موجود تھے۔ انھوں نے اِسلام کو اختیار کیا۔ ہم انھیں اپنے میں لانے لگے تو ان کے والدین اور بھائی ان پر جھپٹے اور ان کو ہم سے چھیننے لگے۔ اسی کھینچا تانی میں انھوں نے ان کے کپڑے پھاڑ دیے (بہرحال ہم اُن کو مسلمانوں میں لے آئے) اور وہ آج ہمارے سردار ہیں جیسے کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ حدیث کا مضمون آگے بھی ہے۔1 حضرت شعبی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ بازار تشریف لے گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ایک نصرانی ایک زرہ بیچ رہا ہے۔ حضرت علی نے اس زرہ کو پہچان لیا اور فرمایا: یہ زرہ میری ہے۔ چلو! میرے اور تمہارے درمیان مسلمانوں کا قاضی فیصلہ کرے گا۔اور ان دنوں مسلمانوں کے قاضی حضرت شُرَیح تھے۔ حضرت علی نے ہی اُن کو قاضی بنایا تھا۔ جب قاضی شُرَیح نے امیر المؤمنین کو دیکھا تو اپنی مجلس سے کھڑے ہوگئے اور حضرت علی کو اپنی جگہ بٹھایا اور خود اُن کے سامنے اس نصرانی کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ حضرت علی نے کہا: اے شُرَیح! اگر میرا فریقِ مخالف مسلمان ہوتا تو میں اس کے ساتھ بیٹھتا، لیکن میں نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان (غیر مسلم ذمیوں ) سے مصافحہ نہ کرو اور اُن کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور اُن کے بیماروں کیبیمار پرسی نہ کرو اور اُن کی نماز جنازہ نہ پڑھو اور اُن کو راستے کے تنگ حصے میں چلنے پر مجبور کرو، انھیں چھوٹا بنا کر رکھو جیسے کہ اللہ نے انھیں چھوٹا بنایا ہے ۔اے شُرَیح! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرو۔ حضرت شُرَیح نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ کیا کہتے ہیں؟حضر ت علی نے کہا: یہ زرہ میری ہے، کافی عرصہ پہلے یہ کہیں گر گئی تھی۔حضرت شُرَیح نے کہا: اے نصرانی! تم کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: میں یہ نہیں کہتا کہ امیر المؤمنین غلط کہہ رہے ہیں، لیکن یہ زرہ ہے میری۔ حضرت شُرَیح نے کہا: میرا فیصلہ یہ ہے کہ یہ زرہ اس سے نہیں لی جاسکتی، کیوں کہ آپ کے پاس کوئی گواہ نہیں۔ حضرت علی نے کہا: قاضی شُرَیح نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے۔ اس پر اس نصرانی نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ انبیا والے فیصلے ہیں کہ امیر المؤمنین اپنے ماتحت قاضی کے پاس آئے اور اس قاضی نے امیر المؤمنین کے خلاف فیصلہ کیا۔ اے امیر المؤمنین! اللہ کی قسم! یہ زرہ آپ کی ہے۔ آپ کے پیچھے میں چل رہا تھا، آپ کے خاکی رنگ کے اونٹ سے گری تھی جسے میں نے اٹھالیا تھا۔ اور پھر اس نصرانی نے کلمۂ شہادت أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا