حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ألَاَ کُلُّ مَا یُدْعٰی مَعَ اللّٰہِ بَاطِلٗ ذرا غور سے سنو! اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کو بھی پکارا جاتا ہے وہ باطل اور لغو ہے۔ اور اس بت کے ٹکڑے کرکے باہر آگئے۔ جب وہ بت کو توڑ رہے تھے تو حضرت ابوالدرداء کی بیوی نے کلہاڑے کی آواز سن لی تھی تو وہ چِلّائیں اور کہا: اے ابنِ رواحہ! تم نے مجھے مار ڈالا۔ حضرت عبداللہ ابھی گھر سے نکلے ہی تھے کہ اتنے میں حضرت ابو الدرداء اپنے گھر واپس آگئے تو انھوں نے دیکھا کہ اُن کی بیوی بیٹھی ہوئی ان سے ڈر کر رو رہی ہے۔ انھوں نے بیوی سے پوچھا: تجھے کیا ہوا ؟ اس نے بتایا کہ تمہارے بھائی عبداللہ بن رواحہ یہاں آئے تھے اور دیکھو! وہ کیا کرگئے۔ (اسے دیکھ کر ایک دفعہ تو) حضرت ابو الدرداء کو بڑا غصہ آیا، لیکن پھر انھوں نے اپنے دل میں سوچا اور کہا کہ اگر اس بت میں کچھ بھلائی ہوتی تو اپنا بچاؤ توکرلیتا۔ وہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓکو لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں گئے اور مسلمان ہوگئے۔1 حضرت زِیاد بن جزء زُبیدی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عمر ؓ کے زمانۂ خلافت میں اِسکندریّہ کو فتح کیا۔ آگے تفصیل سے حدیث ذکر کی ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ہم بَلْہِیب بستی میں ٹھہرگئے اور ہم لوگ حضرت عمر ؓ کے خط کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر کا خط آگیا جو حضرت عمر وؓ نے پڑھ کر ہمیں سنایا۔ اس خط میں یہ مضمون تھا: اَما بعد! تمہارا خط ملا، جس میں تم نے لکھا ہے کہ اِسکندریّہ کے بادشاہ نے تمہارے سامنے اس شرط پر جزیہ دینے کی پیشکش کی ہے کہ ان کے ملک کے تمام قیدی واپس کردیے جائیں۔ میری زندگی کی قسم! جزیہ کا مال جو ہمیں اور ہمارے بعد کے مسلمانوں کو مسلسل ملتا رہے گا وہ مجھے اس مالِ غنیمت سے زیادہ پسند ہے جسے تقسیم کر دیا جاتا ہے اورپھر ختم ہوجاتا ہے۔ تم اِسکندریّہ کے بادشاہ کے سامنے یہ تجویز رکھو کہ وہ تمہیں اس شرط پر جزیہ دے کہ تمہارے قبضے میں اُن کے جتنے قیدی ہیں ان کو مسلمان ہونے اور اپنی قوم کے دین پر باقی رہنے میں اختیار دیا جائے گا۔ اُن میں سے جو اِسلام کو اختیار کرے گا وہ مسلمانوںمیں سے شمار ہوگا، مسلمانوں والے سارے حقوق اسے ملیں گے اور مسلمانوں والی ساری ذمہ داریاں اس پر ہوں گی۔ اور اُن میں سے جو اپنی قوم کے دین پر باقی رہنا چاہے گا اسے اتنا جزیہ دینا پڑے گا جتنا اس کے مذہب والوں پر مقرّر کیا گیا ہے۔ اور اُن کے وہ قیدی جو ملکِ عرب میں پھیل گئے ہیں اور مکہ، مدینہ اور یمن پہنچ گئے ہیں ان کو واپس کرنا ہمارے بس سے باہر ہے، اور ہم کسی ایسی بات پر صلح کرنا نہیں چاہتے ہیں جسے ہم پورا نہ کرسکتے ہوں۔ حضرت عمرو ؓ نے اِسکندریّہ کے بادشاہ کے پاس آدمی بھیج کر امیر المؤمنین کے خط کی اسے اطلاع دی، اس نے کہا: مجھے منظور ہے۔ چناںچہ ہمارے قبضہ میں جتنے قیدی تھے ان سب کو ایک جگہ جمع کیا اور وہاں کے نصاریٰ بھی جمع ہوگئے۔ جو ہمارے پاس قیدی تھے ان میں سے ہم ایک آدمی کو لاتے پھر اسے مسلمان ہونے اور نصرانی رہنے میں اختیار دیتے۔ اگر وہ اِسلام کو اختیارکرلیتا تو ہم کسی شہر کے فتح ہونے پر جتنی زور سے اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہتے اس موقع پر اس سے کہیں زیادہ زور سے اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہتے اورپھر ہم اسے مسلمانوں میں لے آتے۔ اوران میں سے جب کوئی نصرانیت کو اختیار کرتا تو نصاریٰ خوشی سے